کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 136
اسی طرح قبروں پر عمارات تعمیر کرنا، نیز اسے مسجد بنانا اور تبرک کی غرض سے اس کی زیارت کرنا، مُردوں کو وسیلہ بنانا اور اس کے علاوہ دیگر شرکیہ مقاصد کے لئے وہاں جانا۔ عورتوں کا قبروں کی زیارت کرنا بھی بدعت ہے ،کیونکہ رسول اللہ نے قبروں کی زیارت کرنیوالی عورتوں اور قبروں کو مسجد بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔ حرفِ آخر الغرض یہ تمام بدعات کفر کی ڈاک ہیں او راس سے مراد: دین میں ہر وہ اضافہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مشروع قرار نہیں دیا ۔ بدعت گناہ کبیرہ سے زیادہ خطرناک ہے اور شیطان کبیرہ گناہ پر اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا انسان کے بدعت کے ارتکاب پر خوش ہوتا ہے، کیونکہ گنہگار گناہ کرتے ہوئے یہ جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے، لہٰذا وہ اس سے توبہ کرسکتا ہے اور بدعتی اسے دین سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ اس سے کبھی توبہ نہیں کرے گا ۔ بدعات سنتوں کا خاتمہ کردیتی ہیں ، اہل بدعت کو سنت اور اہل سنت سے متنفر کردیتی ہے ۔ اور بدعت انسان کو اللہ سے دور ی،دل کی کجی اور آخر کار اللہ کے غضب کا باعث بن جاتی ہے اہل بدعت سے کیا سلوک کیا جائے! مسلمان کافرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی خیرخواہی کرتے ہوئے اسے درست امر کی نشاندہی کرے جس میں حکمت اور حسن تدبیر کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔ چنانچہ اہل بدعت کے پاس ملاقات کے لئے جانا، ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اور ان سے لین دین کرنا اسی وقت درست ہے جب اس کا مقصد ان کو نصیحت کرنا اور ان کو قریب کرکے سمجھانا ہو ۔ ہمیں اپنے طرز عمل کے ذریعے اہل بدعت کے اس فعل سے بیزاری کا اظہار بھی کرناچاہیے۔ البتہ اگر انسان کے پاس بدعتی کو بدعت کے ارتکاب سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے ،کیونکہ بدعتی کی صحبت سے انسان پر برا اثر مرتب ہو تا ہے ۔ جہاں تک صاحب ِاختیار لوگوں کا تعلق ہے جنہیں اہل بدعت کو روکنے کی طاقت ہو تو ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی گرفت کریں ،اُن کو سمجھائیں اور ان کو بدعت سے روکیں ۔ یقینایہ بدعات اسلام کے لئے شدید خطرہ ہیں ۔ غیر مسلم ممالک بدعت کی نشر و اشاعت میں اہل بدعت کی حوصلہ افزائی اور ہر ممکن ان کا تعاون کررہے ہیں ،تاکہ اسلام کا خاتمہ اور اس کی صورت کو مسخ کیا جا سکے ۔ہم اللہ تعالیٰ سے خواستگار ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے اور اپنے کلمے کو بلند اور اسکے دشمنوں کو رسوا کرے۔ وصلى الله علىٰ نبينا محمد وآله وصحبه اجمعين