کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 135
اسی طرح ماہ رجب میں رجبی عمرہ کرنا اور اس مہینہ میں خاص طور پر نوافل اور روزوں کا اہتمام کرنا، ان سب کا شمار بدعت میں ہوتا ہے ،کیونکہ اس مہینے کو دیگر مہینوں پر کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے ۔اور نہ ہی اس مہینہ میں نوافل اور روزوں اور دیگر عبادات کا اہتمام کرنا کسی سنت سے ثابت ہے ۔ اور اسی طرح صوفیا کے تمام قسم کے خود ساختہ اذکار بھی بدعت کے زمرہ میں آتے ہیں کیونکہ یہ تمام اذکار اپنے الفاظ، طریقے اور اوقات میں شرعی اذکار کے مخالف ہیں ۔ اسی طرح خصوصاً پندرہ شعبان کو روزے اور رات کو قیام کا اہتمام کرنا بھی بدعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی چیز ثابت نہیں ہے جو اس دن کے ساتھ مخصوص ہو۔ ٭ ہمارے ہاں مروّج ان رسوم میں اکثر کے پس منظر کا اگر جائزہ لیا جائے تویہ ہندو تہذیب سے ہمارے ہاں آئی ہیں ، ان رسوم کا بنیادی تصور ہندوئوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔مسلمانوں نے سالہا سال ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں معمولی تغیر وتبدل کے ساتھ اُنہیں اپنا لیا ہے۔ اس سال فروری کے پہلے ہفتے میں ایک رات مجھے اندورنِ لاہور کے ایک سن رسیدہ بزرگ کے ساتھ بیٹھنے کااتفاق ہوا جو کئی نسلوں سے شاہی مسجد کے قریبی محلے میں آباد ہیں ۔ اُنہوں نے بتایا کہ لاہور میں ہندئووں کا اثر ورسوخ اس قدر تھا کہ کہا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت انار کلی کے مشہور بازار میں مسلمانوں کی صرف ایک ہی دکان تھی۔اس دور میں لاہور کے سب مسلمان مل کر شیعہ کے گھوڑے کے جلوس میں شریک ہوتے اور ہندوئوں کے بالمقابل مسلم یکجہتی اور قوت کے اظہار کے لئے اس جلوس میں شیعہ کے ساتھ اہل سنت کے مکاتب ِفکر بھی شرکت کیا کرتے۔جب ہندو یہاں سے چلے گئے تو سنی مسلمانوں نے شیعہ سے نکھار کے لئے گھوڑے کے جلوس کے بالمقابل عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس متعارف کرایا۔اب شیعہ گھوڑے کا جلوس نکالتے تو سنی مسلمان عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ عبد القیوم نامی اس بزرگ نے ایسے ہی یہ بھی بتایا کہ جنازے پر کلمہ شہادت بلند کرنے کی وجہ یا اس بدعت کے مروّج ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ہندو مسلم جنازوں میں امتیاز کے لئے کلمہ شہادت کے نعرے کو بلند کیا جاتا۔ جب ہندو اپنی میت کی چتا جلانے یا کسی اور مقصد کے لئے اُٹھا کر کہیں لے جاتے تو وہ ظاہر ہے کلمہ بلند نہیں کرتے تھے بلکہ کہو رام ، رام کہا کرتے ، اسی سے اُردو زبان میں ’کہرام‘ کا لفظ آیا ہے۔ محترم عبد القیوم صاحب کی ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مروّجہ کئی رسموں کا پس منظر ہندو مسلم کی مشترکہ معاشرت میں ملتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ خالص اسلام کو مقامی رسوم اور تہواروں سے نکھار کر پیش کیا جائے۔ ہمارے ہاں کی مروّجہ بیشتر بدعتوں کے پس پردہ ایسے ہی عوامل کارفرما ہیں ۔ مدیر