کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 134
علماء کرام اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ برکت کی غرض سے ان مقامات پر جانا ، ان کو چھونا، بوسہ دینا اور اس طرح کی دیگر خرافات کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (ایضاً:2/795) (3) قربت ِالٰہی اور عبادات میں بدعات اس زمانہ میں عبادات کے اندر بے شمار بدعات ایجاد کر لی گئی ہیں ، اس لئے کہ عبادات میں اصل توقیف ہے، یعنی عبادات کے سلسلہ میں کسی بھی چیز کو بغیر دلیل کے مشروع قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ لہٰذا ہر وہ عبادت جس کی کوئی دلیل نہ ہو، وہ بدعت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے : ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ اور آج ایسی ہی بے شمار بدعات وخرافات ہمارے معاشرہ میں رائج ہو چکی ہیں ۔ان میں ایک؛ نماز کے لئے زبان سے نیت کرناہے ،مثلاً اونچی آوازسے کہنا کہ میں فرض نماز کی نیت کرتا ہو ں ، فرض اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں ، منہ طرف قبلہ شریف کے وغیرہ وغیرہ ،یہ سب بدعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے منافی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ أَتُعَلِّمُوْنَ اللهَ بِدِيْنِكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الأَرْضِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌ﴾ (الحجرات:16) ”کہہ دیجیے !کہ کیا تم اللہ کو اپنی دینداری سے آگاہ کررہے ہو۔ اللہ ہر اس چیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے ،بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔“ اور نیت دل کا کام ہے ،نہ کہ زبان کا۔ ان بدعات میں سے ایک بدعت نماز کے بعد سب نمازیوں کا اجتماعی طور پر اونچی آوا ز میں وِرد کرنا ہے ،اس لئے کہ درست بات یہ ہے کہ ہر آدمی مسنون اذکار تنہا تنہا کرے۔ اِنہی میں سے مُردوں کے لئے فاتحہ خوانی کرنا ہے ۔کسی کی موت پر قل، ساتھ ،چالیسواں کی محفل٭ منعقد کرنا، کھانا تیار کروانا اور اُجرت پر قرآن خوانی کرانا، اس خیال سے کہ یہ تعزیت ہے یا یہ کہ میت کو اس سے نفع ہو گا،حالانکہ یہ سب بدعات ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ سب رسوم ورواج کی وہ طوق اور زنجیریں ہیں کہ جنہیں اسلام اُتارنے اورتوڑنے آیا تھا ۔ اسی طرح اسراء ، معراج اورہجرتِ نبوی کی مناسبت یا کسی اور دینی مناسبت سے محافل کا انعقاد کرنا سب بدعت ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔