کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 133
ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ وہی برکت کو نازل کرتا اوراس کو برقرار رکھ سکتا ہے ۔ مخلوق برکت کو پیدا کرسکتی ہے نہ عطا کرنے اور اس کو باقی اور برقرار رکھ سکتی ہے ۔لہٰذا مزارات ،آثارِ قدیمہ اور زندہ و مردہ آدمیوں سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ چیز برکت عطا کرسکتی ہے تو وہ مشرک ہے اور اگر یہ اعتقادرکھتا ہے کہ فلاں مزار کی زیارت کرنے، اسے ہاتھوں سے چھونے اور پھر جسم پر ملنے سے اللہ کی طرف سے برکت حاصل ہوتی ہے تویہ شرک کا ذریعہ ہے۔ اور رہی یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال، آپ کے لعاب، اور آپ کے جسم سے علیحدہ ہونے والی چیزوں سے تبرک حاصل کرتے تھے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے اور وہ بھی آپ کی زندگی میں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ اور آپ کے مرنے کے بعد آپ کی قبر سے تبرک حاصل نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تبرک کی غرض سے ایسی جگہوں کا قصد کرتے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نماز پڑھی یاکبھی بیٹھے، لہٰذا اب ان مقامات کو باعث ِبرکت سمجھنا شرک ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اولیا کے مشاہد اور مزارات کا ارادہ کرنا بدرجہ اولیٰ شرک ہوگا۔ صحابہ کرام نہ ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ایسے جلیل القدرصحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کی زندگی میں اور نہ ہی موت کے بعدبرکت حاصل کرتے تھے اور نہ ہی عبادت اور دعا کے لئے غارِ حرا میں جاتے اور نہ اس غرض سے جبل طور جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا، کا رخ کرتے۔ نہ ہی ان پہاڑوں کی طرف رخت ِسفر باندھتے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انبیا وغیرہ کے مقامات ہیں او رنہ ہی کسی نبی کے مزار کا رخ کرتے،حتیٰ کہ مسجد ِنبوی جہاں آپ عمر بھر نماز پڑھتے رہے ، سلف صالحین میں سے کبھی کسی نے اسے بوسہ دیا اور نہ ہی مکہ مکرمہ کے ان مقامات کو جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ۔ وہ مقامات جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک پڑے ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھیں ، جب اُنہیں چھونا یا بوسہ دینا اُمت کے لئے جائز نہیں تو پھر اولیا وغیرہ کے مشاہد ومزارات پر برکت کی غرض سے جانا اور ان کو بوسہ دینا بھلاکیسے جائز ہوسکتا ہے ؟