کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 131
رسول اللہ سے مدد اور فریاد رسی کی جاتی ہے حالانکہ رسول اللہ نے اپنی مدح میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (لاتطروني كما أطرت النصارىٰ ابن مريم إنما أنا عبد فقولوا: عبد الله ورسوله ) (بخاری :3445) ”تم لوگ میری شان میں غلو( حد سے تجاوز ) مت کرنا ،جیسا کہ نصاریٰ نے ابن مریم کے سلسلے میں غلو کیا، بلکہ میں ایک بندہ ہوں لہٰذا تم لوگ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔“ اور اکثرلوگوں کا یہ اعتقاد بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ ان محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں جو سرا سر شرک ہے۔ اس کے علاوہ انہی محافل میں ڈھول کی تھاپ اور موسیقی کی دہن پر گمراہ صوفیا کی خود ساختہ اور شرکیہ قوالیاں گائی جاتی ہیں ۔ عورتوں اور مردوں کا مخلوط اجتماع ہوتا ہے جو کئی فتنوں اور فواحش کا باعث بن سکتا ہے۔ الغرض اگر یہ تمام منکرات نہ بھی ہوں تو بھی صرف محافل کا انعقاد اور وہاں کھانے پینے اور خوشی کا سامان کرنا ہی درست نہیں ۔اس کا جواز کہاں سے ثابت ہوتا ہے ؟یہ بھی تو بدعت ہے۔ (وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ) ”کیونکہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “ اورجب یہ ایک غلط کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ برائی برائی کو جنم دیتی تو پھر یقینی بات ہے کہ ان محافل میں بھی وہی منکرات پیدا ہوں گی جو دیگر محافل کا حصہ ہوتی ہیں ۔ ہم نے اس کو بدعت کہا ، کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل اور اصل نہیں ہے اورسلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ کا م نہیں کیا،حتیٰ کہ خیر القرون میں بھی میں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا۔سب سے پہلے فاطمی شیعوں نے چوتھی صدی ہجری کے بعد اس بدعت کو ایجاد کیا۔ امام ابو حفص تاج الدین فاکہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مبارکین کی ایک جماعت نے مجھ سے باربار عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا اور نہایت واضح جواب کا مطالبہ کیا ۔ تو اللہ کی توفیق سے میں نے جواب دیا کہ ”کتاب و سنت میں اس میلاد کی کوئی اصل اور بنیاد میں نہیں جانتا اور نہ ہی اُمت کے ان