کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 128
زیادہ بہتر ہے یا یقینا تم گمراہی کے دروازے کھول رہے ہو !! تو اِن لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم! اے ابوعبدالرحمن، ہمارا مقصد سوائے خیر کے کچھ نہیں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یاد رکھوبہت سے خیر کے متلاشی ایسے ہیں جو اسے ہرگز نہیں پاسکتے۔رسول اللہ نے ہم کو ایک حدیث سنائی کہ ”ایک قوم قرآنِ مجید پڑھے گی ،لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔“ اور اللہ کی قسم !مجھے معلوم نہیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ تر تمھیں میں سے ہوں ۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے واپس چلے گئے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ’نہروان‘ کے دن دیکھا کہ وہی لوگ خوارج کے ساتھ مل کر ہم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔ (سنن الدارمى،المقدمہ،باب فى كراہية أخذ الراىٴ،رقم:206) (3) ایک آدمی حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں کہاں سے احرام باندھوں ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ جو میقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے، وہاں سے احرام باندھو۔ آدمی نے کہا کہ اگر میں اس میقات سے ذرا پہلے احرام باندھ لو ں تو؟ امام مالک نے کہا: میں اسے درست نہیں سمجھتا۔ اس آدمی نے کہا : اس میں حرج کیا ہے ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہے تم کہیں فتنے میں مبتلا نہ ہو جاوٴ ۔اس آدمی نے کہا کہ خیر کی جستجو میں بھلا کیا فتنہ ہوسکتا ہے ؟ یہ سن کر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِبْيَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ﴾ (النور:63) ”سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں ،اُنہیں ڈرتے رھنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچ جائے ۔“ اور بھلا اس سے بڑھ کر اور فتنہ کیا ہوسکتا ہے کہ تم ایک ایسے کام کو باعث ِفضیلت قرار دے رہے ہو کہ (نعوذ بااللہ) رسول اللہ اس فضیلت سے بہرہ ور نہ ہو سکے ۔ (الباعث الحثیث از ابو شامہ ص :14) نمونے کے طور پر یہ چند مثالیں ذکر کی ہیں ، ورنہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر زمانے میں علماء کرام بدعات کی پر زور تردید کرتے رہے ہیں ۔