کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 127
والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم لوگ صبح کی نماز سے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ نکلیں تو ہم سبھی ان کے ساتھ مسجد چلیں ۔اتنے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھا: کیا ابھی تک ابوعبدالرحمن (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) نہیں نکلے؟ ہم نے کہا : نہیں ابھی تک تو نہیں نکلے ۔چنانچہ وہ بھی ان کے انتظار میں بیٹھ گئے۔جب وہ نکلے تو ہم سبھی لوگ کھڑے ہوگئی۔ ابوموسیٰ کہنے لگے: اے ابوعبدالرحمن ! میں نے ابھی مسجد میں ایک نئی اور اجنبی چیز دیکھی ہے اور اللہ کاشکر ہے کہ خیر ہی دیکھی ہے۔ اُنہوں نے پوچھا : کیا دیکھاہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر زندگی رہی تو آپ بھی ایسا ہی پائیں گے۔پھر بتانے لگے کہ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ بناکر بیٹھے ہوئے دیکھا، وہ نماز کے انتظار میں تھے۔ سب کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں ۔ہر حلقہ میں ایک آدمی تھا، جب وہ کہتا کہ سو بار اللہ أكبرکہو تو سب لوگ سو بار اللہ أكبر کہتے اور جب وہ کہتا کہ سو بار لا إلہ إلا اللہ کہو تو وہ سو بار لاإلہ إلا اللہ کہتے، جب وہ کہتا کہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ کہتے۔ یہ سن کر ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ سے کہا :تم نے اُ نہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ اپنے گناہوں کی فکرکرو، میں تمہیں یقین سے کہتا ہوں کہ تمہار ی نیکیوں میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ پھر وہ چلے،ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،یہاں تک کہ وہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس آکر کھڑے ہوئے اور کہا : میں یہ تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں ؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اے ابوعبدالرحمن!کنکریاں ہیں جن سے ہم تکبیر و تہلیل، تسبیح اور تحمید کے اذکار کا شمار کرتے ہیں ۔ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم لوگ اپنی اپنی خطائیں شمار کرو ،میں تمہیں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی بھی برباد نہیں ہوگی۔ اے امت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہاری تباہی وبربادی ہو!کتنی جلدی تم نے اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا ۔یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد موجود ہے،یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ابھی ٹوٹے نہیں اور تم نے یہ بدعات گھڑ لیں ۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا تو تم لوگ ایسے طریقے پر ہو جو محمد کے طریقے سے