کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 123
رہے گا۔چنانچہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا۔ اور وہاں اصحابِ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دور تک علم وعرفان کا چرچا رہا اور اصحابِ مالک رحمۃ اللہ علیہ کا دور چوتھی صدی ہجری کا زمانہ تھا۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیر القرون کے دور تک مدینہ منورہ میں کوئی نمایاں بدعت ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ (مجموع الفتاویٰ:20/300) ثانیا : بدعات کے ظہور کے اسباب بدعات وخرافات کی آلائشوں سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کتاب وسنت کا دامن مضبوطی سے تھام لیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَأَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلاَ تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهِ﴾ ( الانعام :153) ”اور یہی میرا راستہ سیدھا ہے ، اسی کی پیروی کرو اور دیگر راستوں کی پیروی نہ کرو جو تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں ۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو نہایت واضح انداز میں بیان کردیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے ۔پھر اس کے دائیں بائیں چند لکیریں کھینچی اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں اور ہر راستے پر شیطان بیٹھا اپنی جانب بلا رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَأَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلاَ تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهِ ذَلِكُمْ وَصّٰكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام:153) ”اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جومستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔“ (مسنداحمد:1/435، صحیح ابن حبان:1/181،مستدرک حاکم:2/348) پس جوشخص بھی کتاب و سنت سے روگردانی کرے گا، وہ یقینا ان گمراہ کن راستوں اور نئی نئی بدعات کا شکار ہو جائے گا۔ بنیادی طورپر درج ذیل اسباب تھے جو ان بدعات کے ظہور کا باعث ہوئے : (1) دینی احکام سے جہالت