کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 122
تقدیر، انکارِ عمل، تشیع اور خوارج کی بدعات وخرافات رونما ہوئیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور ان تمام بدعات کی پرزور تردید کی ۔ اس کے بعد ’اعتزال‘ کی بدعت ظاہر ہوئی جس سے مسلمانوں میں طرح طرح کے فتنے پھوٹ پڑے۔ نظریات میں ا ختلاف پیدا ہوا، بدعات اور نفس پرستی کی جانب لوگوں کا رجحان بڑھا۔تصوف کا فتنہ رونما ہوا اورپھر خیر القرون کے بعد قبروں پر بڑی بڑی تعمیرات جیسی بدعات ظاہر ہوئیں اورپھر امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی بدعات میں اضافہ ہوتا گیا۔ (2) بدعات کے ظہور کے مقامات شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پر فرماتے ہیں : ”مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، بصرہ، کو فہ اور شام یہ پانچ بڑے بڑے شہر ایسے تھے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سکونت اختیار کی اور پھر ان علاقوں سے علم وایمان کی قندیلیں روشن ہوئیں ۔ قرآن و حدیث، فقہ وعقیدہ اور دیگر اسلامی اُمور کی کرنیں پھوٹیں لیکن افسوس کہ سوائے مدینہ منورہ کے اِنہی شہر وں سے ہی اعتقادی بدعات وخرافات کی راہیں نکلیں ۔ کوفہ سے شيعيت و مرجۂ کا فتنہ پھوٹا جس نے رفتہ رفتہ دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بصرہ سے فتنہ قدریت واعتزال اوردیگر عقائد ِفاسدہ کا ظہور ہوا اور شام ناصبيت اور قدريت کا مرکز بنا رہا۔ اور ان سب سے بڑھ کر جہميت کا عظیم فتنہ تھا جو خراسان کی جانب سے ظہور پذیر ہوا ۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب فرقہ بندی کا ناسور پھوٹا تو اس کے نتیجہ میں حروریہ کی بدعت رونما ہوئی۔ الغرض جو علاقہ مدینہ منورہ سے جس قدر دور تھا، اسی قدر وہ بدعات وخرافات میں بھی دیگر علاقوں سے آگے تھا۔ لیکن دیارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مدینہ منورہ ان تمام بدعات وخرافات سے محفوظ رہا، اگرچہ وہاں قدریہ وغیرہ کا ایک گروہ ایسا تھا جو اپنے خبث ِباطن میں ان بدعات و خرافات کو چھپائے بیٹھا تھا، مگروہاں ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور اہل مدینہ کی نظروں میں وہ لوگ ذلیل ترین تھے۔اس کے برخلاف کوفہ میں شیعیت و ارجا، بصرہ میں اعتزال و تصوف اور شام میں ناصبیت کی بدعات وخرافات اپنے زوروں پر تھیں ۔ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشین گوئی کر دی تھی کہ مدینہ منورہ فتنوں سے محفوظ