کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 120
اساس کی حیثیت رکھتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ)کی طرح بدعت کی تمام نوعیتوں کو محیط ہے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص جو بھی نئی چیزایجاد کرے اورپھراسے دین بنا کر پیش کرے ،حالانکہ دین میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے تو وہ گمراہی ہے اور اللہ کا دین اس سے بری ہے؛ خواہ اس کا تعلق اعتقادی مسائل سے ہو یا ظاہری و باطنی اعمال و اقوال سے ۔“ (جامع العلوم والحکم ،ص:223) اور بدعت ِحسنہ کہنے والوں کے پاس دلیل صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کے بارے میں یہ قول ہے کہ نعمت البدعة هٰذه ”یہ اچھی بدعت ہے۔“ اسی طرح وہ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ بہت ساری چیزیں ایسی وقوع پذیر ہوئی ہیں جن کا سلف میں سے کسی نے انکار نہیں کیا جیسے (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ) قرآنِ کریم کو جمع کرنا، اسی طرح حدیث کی کتابت و تدوین وغیرہ ٭ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیزیں کوئی نئی نہیں ،بلکہ شریعت میں ان کی دلیل اور اصل موجود ہے ، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح پر فرمان: ”نعمت البدعة هذه“ میں تراویح پر بدعت کا اطلاق اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے ہے، شرعی معنی کے طور پر اُنہوں نے اسے بدعت قرار نہیں دیا۔ کیونکہ تراویح کی جماعت کی اصل شریعت میں موجود ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چندراتیں تراویح کی نماز پڑھائی ہے اور پھر اس خدشہ سے اس کی جماعت کروانا چھوڑ دی کہ کہیں فرض نہ ہوجائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم برابر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ا ور وفات کے بعد تراویح الگ الگ پڑھتے رہے،یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں تمام لوگو ں کو اسی طرح ایک امام کے پیچھے جمع کردیا جس طرح کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتے رہے ۔کیونکہ وحی منقطع ہوچکی تھی او ر اب تراویح کے فرض ہونے کا خدشہ نہیں رہا تھا۔ چنانچہ تراویح کو بھلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کیسے قرار دے سکتے ہیں ؟ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے ان کی مراد لغوی بدعت ہی تھی، کیونکہ شرعی لحاظ سے بدعت اُسے کہا جاتا ہے جس کی شریعت میں ایسی کوئی اصل موجود نہ ہو ، جس کی طرف رجوع کیا جا سکے ۔ ٭ اسی طرح قرآن کریم کو کتاب کی شکل میں جمع کرنے کی اصل بھی شریعت میں موجود تھی، اس لئے کہ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کو قرآن کریم لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم