کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 119
(3) فرمانِ نبوی: (من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهوردّ) (مسلم:کتاب الاقضیہ،باب نقض الاحکام الباطلہ) ”جس نے کوئی ایسا کام کیاجس پر ہمارا حکم نہیں توایسا کام رد کیا جائے گا۔“ یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عبادات و اعتقادات میں بدعات داخل کرنا حرام ہے،لیکن یہ حرمت ،بدعت کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ٭ بعض بدعات تو صریح کفر ہیں جیسا کہ صاحب ِقبرکا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کی قبر کا طواف کرنا، اس کے در پر نذر و نیاز دینا،چڑہاوے چڑھانا، ان سے مرادیں مانگنا اور مدد کی فریاد کرنا۔ اسی طرح غالی جہمیوں اور معتزلیوں کے نظریات بھی صریح کفر کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ بعض بدعات ’ذرائع شرک‘ کے زمرہ میں آتی ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا، وہاں نماز پڑھنا اور دعائیں مانگنا۔ ٭ بعض بدعات اعتقادی گمراہی کے زمرہ میں آ تی ہیں جیسا کہ خوارج، قدریہ اور مرجیہ کے وہ جدید نظریات اور عقائد جو شریعت کے مخالف ہیں ۔ ٭ اور بعض بدعات معصیت و نافرمانی کے زمرہ میں آتی ہیں ،جیسے نکاح کرنے سے کنارہ کشی اور روزہ کی حالت میں دھوپ میں کھڑے ہونے کی نذر ماننا، اسی طرح شہوتِ جماع ختم کرنے کی غرض سے اپنے آپ کو خصی کر لینا ۔ (الإعتصام للشاطبي:2/37) تنبیہ : یادرہے کہ جو شخص بدعت کی تقسیم اچھی اور بری بدعت سے کرتا ہے، وہ غلطی پر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول (فإن كل بدعة ضلالة)کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تقسیم کے تمام بدعات کوگمراہی قرار دیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ بعض لوگ تمام بدعات کو گمراہی قرار نہیں دیتے بلکہ بعض بدعات کو حسنہ کہتے ہیں ۔ حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’جامع العلوم والحکم ‘میں فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان: (فإن كل بدعة ضلالة)آپ کے جوامع الکلم میں سے ہے جس سے بدعت کی کوئی صورت بھی خارج نہیں ہے۔یہ حدیث اُصولِ دین میں عظیم