کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 118
کرنا،جس کو اللہ تعالی نے مشروع قرار نہیں دیا، مثلاً مل کر خوش الحانی کے ساتھ اونچی آوازمیں مسنون اذکار کا ورد کرنا۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں بعض حضرات نماز ختم ہوتے ہی اجتماعی انداز میں اونچی آواز میں لا إلہ إلا اللہ کا وِرد کرتے ہیں یا عبادت میں اپنے آپ پر اس قدر سختی برتنا کہ وہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تجاوز کرجائے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں تین صحابہ رضی اللہ عنہم کا واقع مشہور ہے کہ ایک نے ساری ساری رات نوافل پڑھنے کا عزم کیا ،ایک نے ہمیشہ روزہ رکھنے کا عزم باندہا اور ایک نے عمر بھر نکاح نہ کرنے کا عہدکیا کہ میری عبادت خلل انداز نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا توفرما یا: (من أعرض عن سنتى فليس مني)
”جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔“
چوتھی قسم: کسی مشروع عبادت کے لئے کوئی ایسا وقت متعین کر لینا ، جسے شریعت نے معین نہ کیا ہو، جیسا کہ بعض لوگ پندرہویں شعبان کو خاص طورپر نفل نوافل اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں ؛یہ بدعت ہے، کیونکہ نفلی نماز و روزہ تو مشروع ہے لیکن اس کے لئے اپنی طرف سے کو ئی وقت متعین کرلینا، اس کے لئے شرعی دلیل کی ضرورت ہے ۔
دین میں بدعات ایجاد کرنے کا حکم
دین میں کوئی بھی بدعت ایجاد کرنا حرام اور باعث ِگمراہی ہے ۔اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین ہیں :
( وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة)
(1)”دین کے اندرنئی نئی چیزیں داخل کرنے سے باز رہو، بلا شبہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“(ابوداود؛کتاب السنة،رقم 7064،ترمذی؛کتاب العلم،رقم2676 ) امام ترمذی نے اس حدیث صحیح حسن قرار دیا ہے ۔
(2) فرمانِ نبوی( من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ) (متفق علیہ؛بخاری،کتاب الصلح،رقم 2697)
”جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“