کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 117
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ (متفق علیہ ؛بخاری ؛کتاب الصلح،رقم 2697) ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین کیخلاف ہے توایسا کام رد کر دیا جائے گا۔“( مسلم ) بدعت کی اقسام دین میں بدعت کی دو قسمیں ہیں : (1) نظریات اور عقائد میں بدعت: مثلاً جہمیہ، معتزلہ، رافضہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے نظریات واعتقادات (2) عبادات میں بدعت: اس کی بھی چند صورتیں ہیں : پہلی قسم: نفس عبادت ہی بدعت ہو ، یعنی کوئی ایسی نئی عبادت ایجاد کرلی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد اور اصل نہ ہو۔مثلاً کوئی ایسی نماز، روزہ یا عید، جیسے عید ِمیلاد وغیرہ ایجاد کرنا جس کا پہلے شریعت میں وجود ہی نہیں تھا ۔ دوسری قسم: کسی مشروع عبادت میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ کرلینا مثلاً کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت کا اضافہ کردے۔ تیسری قسم: عبادت کے طریقہ ادائیگی میں بدعت، یعنی کسی عبادت کو ایسے طریقہ پر ٭ توقیف شریعت کی اصطلاح ہے جو موقوف سے ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ایسا فعل جو اللہ کی ہدایت اور رہنمائی پر ہی موقوف ہو، اس فعل کی بنیاد اللہ کی رہنمائی ہو نہ کہ انسان کی ذاتی سمجھ بوجھ۔ شریعت ِاسلامی کا اُصول یہ ہے کہ عبادات میں اصل توقیف ہے، یعنی اصل ان میں ’حرمت‘ ہے۔ کوئی بھی عبادت بجالانا اسی وقت ہی درست ہوگا، جب اس کے بارے میں شریعت کی ہدایت پائی جائے، اپنی طرف سے عبادت گھڑی نہیں جاسکتی۔ البتہ معاملات یعنی انسانی زندگی کے روزمرہ معمولات میں اصل بات ’حلت‘ ہے۔ انسان کے دنیاوی اُمور تمام کے تمام جائزہیں جب تک ان کے بارے میں شریعت میں حرمت کی دلیل نہ پائی جائے۔ مثلاً وہی سودے کرنا حرام ہے، جن کے بارے میں شریعت میں نہی آئی ہے، اور وہی گوشت کھانا حرام ہے جس کی ممانعت شریعت میں ملتی ہے۔ (ح ۔ م)