کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 115
اس تواتر میں شامل ہیں ۔ کیا یہ تواتر احادیث و سنن روایت کرنے والوں سے الگ لوگوں کا ہے؟ اور اگر یہ وہی لوگ ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اکٹھے ہوں تو اعتبار اور اعتماد کی سند سے بہرہ ور ہوتے ہیں اورالگ الگ ہو جائیں تو اس سند سے محروم ہوجاتے ہیں ، یہ گورکھ دھندہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے !!
پرویز صاحب اور غامدی صاحب دونوں اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآنِ کریم کی حتمی تشریح کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ کسی حدیث کو ان کی ’عقل عام‘ نے قرآن کریم کے موافق قرار دے دیا تو وہ قابل قبول ہے اور اگر کسی حدیث کے بارے میں ان کی عقل یہ کہہ دے کہ وہ قرآنِ کریم سے متصادم ہے تو وہ مسترد ہوجائے گی۔ یہ ایک الگ گورکھ دھندہ ہے کہ جو حدیث قرآنِ کریم کے مطابق ہوگی، وہ قابل قبول ہوگی اور جو قرآنِ کریم سے متصادم ہوگی، وہ قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرسکے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں حدیث قرآنِ کریم سے متصادم ہے اور فلاں حدیث متصادم نہیں ہے؟ ایک حدیث کو پرویز صاحب قرآن کریم سے متصادم سمجھتے ہیں ، مگر غامدی صاحب کے نزدیک وہ متصادم نہیں ہے۔ کسی اور حدیث کو غامدی صاحب قرآن کریم کے منافی قرار دے دیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ پرویز صاحب کے نزدیک قرآن سے متصادم نہ ہو… پھر بات صرف پرویز صاحب یا غامدی صاحب تک تو محدود نہیں ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ دانش اپنے اپنے الگ اُصول وضع کرکے اس میدان میں مصروفِ کار ہیں ۔ ان کی اس فکری دھماچوکڑی سے قرآنِ کریم کو کون محفوظ رکھ سکے گا؟
ایک دوست نے اس کا یہ حل بتایا ہے کہ سب کو اپنی اپنی بات کرنے دو، جس کو اُمت قبول کرے گی، وہی صحیح قرار پائے گا۔ میں نے گزارش کی کہ قرآن کریم کے جس مفہوم کو اور اس کی جس تعبیر و تشریح کو اُمت چودہ سو سال سے اجتماعی تعامل کی صورت میں قبول کئے ہوئے ہے، اس نے کیا قصور کیا ہے کہ اسے مسترد کرکے اُمت کو اس سر نو اس جھنجھٹ میں ڈال دیا جائے۔
ہمارے خیال میں یہ سارے مسائل جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو قرآنِ کریم کی تعبیر وتشریح کا سب سے بڑا معیار تسلیم نہ کرنے اور قرآن وسنت کی تعبیر و تشریح میں اُمت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل کو ردّ کردینے کا فطری نتیجہ ہے، جس سے اُمت کے فکری خلفشار میں اضافہ تو ہوتا رہے گا، مگر اس طرزِ عمل سے اُمت کی صحیح سمت میں رہنمائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔