کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 114
جبکہ جمہور علماے اُمت کے نزدیک، جن کے اسلوبِ تحقیق کو دونوں حضرات ’روایتی‘ قرار دے کر ردّ کردیتے ہیں ۔ فہم قرآن کے لئے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کے کسی ارشاد کا مفہوم متعین کرنے کے لئے متکلم کی منشا تک رسائی کی کوشش کی جائے اور وہ کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی نہیں ہے اور قرآنِ کریم کے کسی لفظ یا جملے کے بارے میں ہم اللہ ربّ العزت سے یہ دریافت نہیں کرسکتے کہ اس سے آپ کی مراد کیا ہے یا اس کے جو مختلف مفہوم سمجھے جارہے ہیں ، ان میں سے کون سا مفہوم آپ کی منشا سے زیادہ قریب ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے نمائندے تک تو ہمیں رسائی حاصل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جس نمائندے نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کا متن عطا فرمایا ہے، اسی نمائندے نے اس کی تشریح بھی کی ہے اور اس کے اکثر و بیشتر مقامات کی وضاحت بھی اپنے ارشادات، اعمال اور اُسوہٴ حسنہ کے ذریعے کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ نمائندہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے، جن کے بارے میں ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا جملہ بولتے ہی ہم ان کی یہ اتھارٹی تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں ، جن کا مشن ہی یہ تھا کہ ”اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچائیں اور اس کی وضاحت کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کی منشا سے آگاہ کریں ۔“ ہم یہ بات آج تک نہیں سمجھ پائے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ تسلیم کرلینے اور قرآن کریم کا متن ہم تک پہنچانے میں مجاز اتھارٹی کے طور پر قبول کرلینے کے بعد اسی قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اُسوہٴ حسنہ کو حتمی معیار تسلیم کرنے میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ جبکہ قرآن کریم اُمت تک جن ذرائع سے پہنچا ہے، وہی ذرائع اسی کی تشریح میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کو ہم تک منتقل کررہے ہیں ۔ اگر وہ ذرائع قرآنِ کریم کو اُمت تک منتقل کرنے میں قابل اعتماد ہیں تو حدیث و سنت کو اُمت تک پہنچانے میں کیوں قابل اعتماد نہیں ہیں اور اگر وہ حدیث و سنت کی روایت میں خدانخواستہ قابل اعتماد نہیں ہیں تو قرآن کریم کی روایت میں کس طرح قابل اعتماد ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے مہربان فرماتے ہیں کہ قرآن کریم چونکہ تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ا س لئے وہ شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تواتر کن لوگوں کا ہے اور کون سے افراد