کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 113
تقاضوں کا تعلق ہے، اگر چہ لغت اور ادبِ جاہلی دونوں اس کی ضروریات میں سے ہیں ، لیکن فہم قرآن کریم کا انحصار ان دونوں پر یا ان میں سے کسی ایک پر نہیں ہے۔ یہ دونوں صرف معاون ہیں اور فہم قرآن تک رسائی کے ذرائع میں سے ہیں ، لیکن اس کی اصل بنیاد جس چیز پر ہے، اُسے دونوں حضرات فہم قرآن کریم کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ صرف قرآنِ کریم کے لئے نہیں ، بلکہ دنیا کے کسی بھی کلام کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس زبان کی لغت سے واقفیت حاصل کی جائے، جس میں وہ کلام کیا گیا ہے۔ جب تک کسی لفظ کی لغوی ساخت اور پس منظر سامنے نہ ہو، اس کا صحیح مفہوم سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کلام جس دور میں سامنے آیا ہے، اس دور کے حوالے سے اس زبان کے ادب، اس کے محاوروں اور دیگر ضروری اُمور پر بھی نظر ہو، کیونکہ ایک ہی زبان کے محاورے، ضربُ الامثال اور الفاظ کے استعمال کے دائرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مفہوم میں تنوع اور تغیر پیدا ہوتا رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کے ترجمے ہی کے حوالے سے حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے کو سامنے رکھ لیا جائے، جو تمام اردو تراجم کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تو اس کے بہت سے الفاظ، جملے اور محاورے اس دور کے اُردو ادب سے واقفیت کے بغیر سمجھنا مشکل ہوجاتے ہیں ۔ کلام کو سمجھنے کے لئے لغت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس زبان کے ادب و شعر کے ذخیرے کو غیر ضروری قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ خود متکلم کی منشا تک رسائی حاصل کی جائے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے کیا کہنا چاہتا ہے اور جو لفظ یا جملہ اس نے کلام میں استعمال کیا ہے، خود اس کے نزدیک اس کا مفہوم اور مدعا کیا ہے؟ اگر کسی کلام کے متکلم تک رسائی میسر ہو اور اس کے کلام کے کسی حصے کے بارے میں اس کی منشا اور مراد سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہو تو لغت اور محاورہ دونوں کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے اور کلام کا وہی مفہوم صحیح قرار پاتا ہے، جو متکلم کی طرف سے سامنے آگیا ہو۔ مگر بدقسمتی سے پرویز صاحب اور غامدی صاحب دونوں کے نزدیک متکلم کی منشا تک رسائی کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے اور دونوں اپنے اپنے اُسلوبِ تحقیق کے مطابق جس مفہوم تک اپنے تئیں پہنچ جاتے ہیں ، اُسی کے بارے میں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ اسے متکلم، یعنی اللہ تعالیٰ کی منشا تصور کیا جائے اور اسی کو قرآنِ کریم کا صحیح مفہوم قرار دیا جائے!!