کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 112
کتاب وحکمت مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن فہمی اورحدیث ِنبوی
فہم قرآن کریم کے تقاضوں کے حوالے سے ان دنوں دو علمی حلقوں میں ایک دلچسپ بحث جاری ہے۔ ایک طرف غلام احمد پرویز صاحب کا ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ ہے اور دوسری طرف جاویداحمد غامدی صاحب کے شاگردِ رشید خورشید احمدندیم صاحب ہیں ۔ ’طلوعِ اسلام‘ کے ماہ رواں کے شمارے میں خورشیدندیم کا ایک مضمون، جس میں انہوں نے پرویز صاحب کی فکر پر تنقید کی ہے، شائع ہوا ہے اور اس کے جواب میں ادارہ طلوع اسلام کی طرف سے ایک تفصیلی مضمون بھی اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے۔ ہمیں ان مضامین کی باقی تفصیلات سے زیادہ دلچسپی نہیں ، البتہ ایک پہلو خاص طور پر قابل توجہ معلوم ہوتا ہے؛ وہ یہ کہ خورشید ندیم صاحب نے غلام احمد پرویز کی فکر پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ قرآنِ کریم کو صرف لغت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور قرآن کریم کے مختلف الفاظ کے لغوی معانی اور ان کے پس منظر کو کھنگال کر ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں ، جس سے لغوی تحقیق اور بحث تو ضرور سامنے آتی ہے، لیکن قرآن کریم کی منشا اور مراد تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
اس کے جواب میں طلو عِ اسلام نے خورشید احمد ندیم کے استادِ محترم جناب جاوید احمد غامدی کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ قرآن کو جاہلی دور کے عربی ادب اور شعرو شاعری کے ذخیرے کی بنیاد پر سمجھنا چاہتے ہیں اور ادب ِجاہلی کی روایات کے حوالے سے قرآن کریم کی منشا اور مراد کی صحیح طور پر وضاحت نہیں ہوپاتی۔
گزشتہ روز میرے پاس اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے دو دوست بیٹھے اس مکالمے پر گفتگو کررہے تھے۔ اس گفتگو میں راقم الحروف بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ میں نے گزارش کی کہ میرے نزدیک دونوں درست بات کررہے ہیں ۔ جو بات خورشیدندیم نے غلام احمد پرویز کے بارے میں کہی ہے، میں اسے بھی صحیح سمجھتا ہوں اور جو تبصرہ طلوعِ اسلام نے غامدی صاحب کی فکر پر کیا ہے، وہ بھی خلافِ واقعہ نہیں ہے۔ جہاں تک فہم قرآن کریم کے بنیادی