کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 111
آسان الفاظ میں سمجھنے کے لئے ایک درخت کی مثال لیجیے۔ درخت کا تنا جو کسی درخت کے لئے سب سے بنیادی نوعیت کا کام کرتا ہے، بذاتِ خود اس پر پہل یا پتے نہیں لگتے، لیکن اس تنے کی صحت وبیماری پر ہی اس پہل کی خوبی وناخوبی کا دارومدار ہوتا ہے، اگر کسی درخت کا تنا کرم خوردہ ہوجائے تو اس کا پہل بھی عنقریب ختم ہوجائے گا۔ ایسے ہی اس تنے کی زمین میں جڑیں جتنا مضبوط ہوں گی، اس درخت کے فوائد اور مضبوطی میں اسی قد راضافہ ہوتا جائے گا۔ تعلیمی اداروں کی مثال درخت کے تنے کی ہوتی ہے، ان کے فیض یافتہ زندگی کے مختلف شعبوں میں جوکارنامے انجام دیتے ہیں ، وہ اس درخت کے پہل تصور ہوتے ہیں ۔ درخت کے تنے پر چونکہ پہل نہیں لگتا ، اس لئے اس کو بے کا رقرار دینا سطحيّت ہے۔ ہم نے گذشتہ اوراق میں جن امتیازات کا ذکر کیا ہے، وہ سب اسی تنے کا پہل ہیں ۔ عقلمند لوگ پہل کو یا شاخوں کو کاٹنے کی بجائے اصل تنے کو نشانہ بناتے ہیں ، کہتے ہیں چور کونہیں ، چور کی ماں کو پکڑو۔ ایسے ہی دانا لوگ شاخوں کو غذا دینے کی بجائے تنے کو مضبوط بنانے میں اپنی توجہ صرف کرتے ہیں ۔ تنا مضبوط ہوگا تو اس کے ثمرات بھی بہت زیادہ ہوں گے !! برصغیر کے یہ دینی مدارس عوام الناس کے لگائے ہوئے وہ پودے ہیں ، جو اہل عزیمت کی قربانیوں اور عوام الناس کے تعاون سے غذا پا کر اب تناور درخت بن چکے ہیں ۔ ان مدارس کا جب آغاز ہوا تھا، تب ہر گلی محلہ سے ایک ایک ٹکڑا روٹی جمع کرکے یہاں کے طلبہ اپنی خوراک پوری کرتے اور یہاں پڑھانے والے اساتذہ رزقِ کفاف پر قناعت کرکے دن رات دین کی خدمت میں صرف کرتے۔ ڈیڑھ دو سوسال کے عرصہ میں یہ نظام مضبوط ہوچکا ہے، اور اگر عوام الناس اس کی مدد پر یونہی کاربند رہے تو وحی وشریعت کا یہ درخت ہمیشہ تن آور اور سدابہار رہے گا۔ اگر برصغیر کے مسلمانوں نے ان کی حفاظت میں کوتاہی کی تو اللہ یہ سعادت ان لوگو ں کو عطا کرے گا جو اس دین کی حفاظت اور فروغ کی ذمہ داری کا حق ادا کرنیوالے ہوں گے۔ یہاں کے مسلمان عوام کے دینی جذبہ نے اس درخت کو سینچنے میں اپنا خون دیا ہے، جس درخت کی جڑیں عوام میں ہوں ، گویا اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور کسی کے گرانے سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ اللہ ہمیں ان مدارس سے فیض یاب ہونے اور ان کی حفاظت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین! یہاں صرف مدارس کی خدمات پر اکتفا کیا گیا ہے، مدارس پر اعتراضات کی وضاحت کے لئے عنقریب لکھا جائے گا ، ان شاء اللہ …مضمون کے مندرجات کے بارے میں قارئین کی آرا کا خیر مقدم کیا جائے گا