کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 110
ابلاغ اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں اپنی قدر وقیمت کھونے کا شعور ہونے کے باوجود یہ انہی کا حوصلہ ہے کہ دین کی خدمت کا بارِ گراں اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھانے کا عزم رکھتے ہیں ۔ یہ سعادت ان لوگوں کے حصے میں نہیں آتی جو قربانی کا عزم اورجذبہ نہ رکھتے ہوں ۔ ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ آج کے معاشرے کا جدید نوجوان اپنے وقت کے چند گھنٹے دین کے فروغ پر لگانے کے بجائے اُسے معاش کے حصول میں صرف کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ اپنی کوتاہی پر نظر کرنے کی بجائے ان اداروں کو الزام دیتا ہے جہاں اسے سٹینڈرڈ کے ساتھ نشست وبرخاست کی سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں ۔ درحقیقت اس کے پاس اس تعلیم کے لئے ہفتے میں چند گھنٹوں کا وقت بھی نہیں جو روحانی پہلو سے اس کی شخصیت کی تکمیل کرتی ہے۔ جدید دور کا مادّی انسان ہر چیز کو مال وزر کی نظر سے دیکھنے کا عادی ہے، لیکن ایسے دور میں مدارس کے طلبہ اس سے بے نیاز ہوکراپنے وقت اور صلاحیتوں کو اسلام کے فروغ کے لیے پیش کرتے ہیں تو اسلامی معاشرے کا ہرفرد ان کے احسان تلے ہے، کیونکہ معاشرے پر عائد دینی تعلیم کے فروغ اورحفاظت کا فرضِ کفایہ انہوں نے ادا کرکے باقی کو گنہگار ہونے سے بچا رکھا ہے۔ معاشرے میں ’اجنبیت کا عذاب‘ سہہ کر یہ لوگ اسلام کی خدمت کرتے ہیں ۔
٭ تعلیمی اداروں میں تعلیم وتدریس پر ہی توجہ دی جاتی ہے، او ریہ تعلیمی ادارے بذاتِ خود معاشرے میں اس امر کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کرتے کہ وہ چند بچوں کو مخصوص نوعیت کے علوم اور فکری تربیت سے آراستہ کردیتے ہیں ۔ اس لحاظ سے نہ مدارس کا معاشرتی تعمیر واصلاح میں ڈائریکٹ کوئی کردار ہے او رنہ ہی اس نوعیت کے دیگر تعلیمی اداروں کا ۔
لیکن یہ تعلیمی ادارے دراصل ایک نسل کو تیار کرنے کے ذریعے مختلف مقاصد اور پروگراموں کے لئے افرادِ کار تیار کرتے ہیں جو بعد میں ان شعبوں میں کھپ کر انہیں تعمیر وترقی سے آراستہ کرتے ہیں ۔ افراد کی تیار ی کے لئے تعلیمی اداروں کا کردار اساسی نوعیت کا ہے۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ سطحی نظر رکھنے والوں کو مدارس کے تعلیمی اداروں سے معاشرے میں خاطر خواہ تبدیلی کا دعویٰ سمجھ نہ آتا ہو لیکن ان مدارس سے فیض یافتہ لوگوں کی جن شعبوں میں کھپت ہوتی ہے اور ان مدارس سے جن پروگراموں کو نوجوان فراہم ہوتے ہیں ، ان کاجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان شعبوں کا چلنا دراصل انہی مدارس کے مرہونِ منت ہیں ۔