کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 109
تعاون کے سہارے چلایا جارہا ہو، اور ان میں ترغیب وآسانی کی کسی گنجائش کے بجائے ہردم سختی اور گرفت کا رویہ رکھا جائے، وہاں مثالی معیارکی توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔ مدارس کی خدمات کا اعترا ف کے بجائے اُنہیں معاشرے میں اجنبی بنانے کی مذموم کوششیں عروج پر ہوں ، مدارس کی سندات کو قبو ل کرنے کی بجائے ان سے گریز کی پالیسی زیر عمل ہو، امن وامان کا یہ عالم ہو کہ مدارس کے نامور اساتذہ کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہو، ان حالات میں کیونکر ان کا مقابلہ ایسے اداروں سے کیا جائے جنہیں ملک کے ذہین او رمقتدر طبقہ کی ہمہ نوعیت سرپرستی حاصل ہو۔
٭ یہ مدارس اپنے طلبہ کو مفت تعلیم ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ ان طلبہ کی جملہ ضروریات تدریسی کتب، علاج اور لباس کی کفالت بھی کرتے ہیں ۔او ران کی جتنی کوششیں نظامِ تعلیم کی بہتری پر صرف ہونی چاہئیں ، اس سے کہیں زیادہ اس مالیت کو جمع کرنے میں صرف ہوجاتی ہیں جن سے ان کے طلبہ کی رہائش او رقیام وطعام کے دیگر تقاضے پو رے ہوتے ہیں ۔کیا وطن عزیز میں ایسا کوئی نظامِ تعلیم ہے جوصرف مفت تعلیم ہی فراہم کرے۔ گورنمنٹ پنجاب نے غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر ابھی حال ہی میں یہ امتیاز حاصل کیا ہے ،لیکن کہاں ایک کثیر وسائل والی حکومت جو عوام کے ہی ٹیکسوں سے عمارتیں اور اساتذہ مہیا کرتی ہو یا ایسے عالمی قرضوں کی مدد سے جن کا وبال بعد میں آغا خان بورڈ کی صورت میں نازل ہو۔
معروضی تجزیہ اور زمینی حقائق کا دعویٰ کرنے والے ہمارے یہ ذہین وفطین دماغ پھر یہ تجزیہ کرنے چل نکلتے ہیں کہ مدارس میں رہائشی معیار بلند نہیں ،سہولیات کا سٹینڈرڈ بڑا پست ہے۔ پھر بعض مثالیت پسند شہری انہیں بیکن ہاوٴس سکول سسٹم اور آغا خان میڈیکل یونیورسٹی سے موازنہ کر کے ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ادارے تگڑی فیسوں کے علاوہ امریکی ثقافت کو پروان چڑھانے کی امریکہ سے ہرسال کتنی بڑی قیمت تعلیم کی سرپرستی کے نام پر وصول کرتے ہیں ۔
٭ یہاں اس امر کا اظہاربھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعادت صرف مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو حاصل ہے کہ وہ بادِ مخالف کی پروا کئے بغیر اپنی زندگی اسلام کے فروغ کے لئے وقف کردینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ مدارس کے فضلا کے خلاف ہردم شعلے اُگلنے والے ذرائع