کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 108
کے سربراہ ملا عمر نے تمام بے سروسامانی کے باوجود وقت کی سپر قوت سے ٹکرانے میں پس وپیش نہ کی اور جدید تعلیم کے پروردہ جنرل پرویز مشرف نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود جنگ سے قبل ہی امریکہ کے در پر جبین ِنیاز جھکا دی۔ یہ دو رویے اپنے نظامِ تعلیم اور ذہنی تربیت کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ہمیں حکمت ِعملی اور حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت سے انکار نہیں اور اسلام صرف کفر کے آگے نہ جھکنے اور اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرنے کا نظریہ ہی پیش نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام ہمیں ہر ممکن جنگی تیاری اور بھر پور سفارتی وسیاسی حکمت ِعملی اختیار کرنے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ دین کے بعض احکامات پر عمل کر کے کچھ حصے پر عمل کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے، لیکن مشکلات ومصائب کے بالمقابل انسان کی بنیادی شخصیت کا جوہر بھر حال نمایاں ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا مثال سے صرف اس بنیادی جوہر کی نشاندہی مقصود ہے۔یہ امر بہر حال مسلم ہے کہ انسان کے فیصلے، طرزِ عمل اوررویے اس کے عقائد ونظریات کا پر تو ہوتے ہیں !!
مدارس کے بارے میں مذکورہ بالا جو خصوصیات ہم نے آ پ کے سامنے پیش کی ہیں ، ان کو گنوانے کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ ہم گویا مدارس کے اس نظام سے سو فیصد متفق ہیں اور ان میں کسی ترمیم واصلاح کے ضرورت نہیں سمجھتے۔ یہ مدارس کے کام کے امتیازی اور مثبت پہلو ہیں جن سے مسلمانوں کو صرف ِنظر نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ان کی اس اہمیت کا تذکرہ ہے جس کی وجہ سے مدارس کو اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے لیکن اسلامی تاریخ تعلیم وتعلّم اور علم پروری کی جن شاندار روایات کو ہمارے لئے محفوظ کرتی ہے، موجودہ مدارس کا دامن بھی اُن سے خالی ہے۔ مدارس میں اصلاحِ احوال کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے اور اس پر متعدد پہلووٴں سے لکھا جا سکتا ہے ،لیکن ایسے عالم میں جب ہرطرف سے ان کے وجود کو نشانہ بنایا جارہا ہو، اور مسلمانوں میں ان کی جڑوں اور خدمات کو دھندلا کرنے کی مذموم مساعی جاری ہوں ، ان کے بارے میں آوازۂ اصلاح بلند کرنا ایک اعتبار سے تنقید کرنے والوں کی تائید کرنا ہے۔یہ امر ان حالات میں حکمت کے بالکل منافی ہے کہ ان پر تنقید کی جائے بلکہ اس وقت ان کو عزم وحوصلہ دینے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے او رعوام الناس کو ان سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔
یوں بھی یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ جن اداروں کو کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر صرف عوامی