کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 107
ہے،لیکن یہ قدامت وبنیاد پرستی، جدید تہذیب کے ترتیب وتعلیم یافتہ لوگوں کو ایک آنکہ نہیں بھاتی اور وہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا درس دیناشروع کر دیتے ہیں ۔ (3)مدارس کے اس شاندار کردار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیروں کی تعلیم سے آراستہ اور ان کے نظامِ تعلیم (سکول وکالج )کے پروردہ لوگ دورانِ تعلیم ان کی علمی ہیبت سے مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ جن سے علم وفلسفہ وہ پڑھتے ہیں اور جن شخصیات سے وہ متعارف ہوتے ہیں تو لازمی سی بات ہے کہ اس کا اثر بھی ان کے فکر وذہن پر مرتسم ہوتا ہے۔ مدارس کے پڑھے ہوئے لوگ گو کہ موجودہ دنیا کے بارے میں زیادہ باخبر نہیں لیکن اپنے شاندار ماضی اور عظیم علمی روایات سے انہیں آگاہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی زمانے کی عظیم قوت کے سامنے وہ مرعوبیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ انسان اپنے آپ میں پر اعتماد ہو تب ہی وہ عظیم کارنامے انجام دے سکتا ہے، اور اگرانسان غیروں کی برتری میں مسحور ہو تو اپنی سی صلاحیت سے بھی کام نہیں لے سکتا۔ اوّل تو جس اسلامی عقید ہ کو وہ دورانِ تعلیم بار بار پڑھتے ہیں ، وہ ان کی شخصیت کا لازمی جز بن جاتاہے۔ اورجو شخص اسلامی عقائد کے بارے میں معمولی سا بھی علم رکھتاہے، وہ وسائل اور ظاہری قوت پر بھروسہ کرنے کی بجائے قوت وجبروت رکھنے والے اللہ ربّ العٰلمین کی کبریائی پر بھروسہ رکھتاہے۔اس کو بدر واُحد کے معرکے بھی ذہن میں تازہ ہوتے ہیں جب اللہ اپنے بندوں کی فرشتوں کے ذریعے بھی مدد کرتا ہے … ﴿كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةٍ بِاِذْنِ اللهِ﴾ (البقرة : 249) اور ﴿وَأنْتُمْ الأَعْلَوْنَ إنْ كُنْتُمْ مُوٴْمِنِيْنَ﴾ (آل عمران:129) ایسے ہی یہ لوگ مغرب کی شخصیات سے مرعوب ہونے کی بجائے اسلامی شخصیات کی علمی وذہنی برتری کو تسلیم کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کو ائمہ اسلام کی شان، دیانت وامانت، حفظ وورع اور علم و فلسفہ سے آگاہی ہے، وہ یورپ کے فلسفیوں اور دانشوروں سے کیا متاثر ہوں گے؟ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں علوم کی جس طرح سرپرستی کی اور نت نئے علوم کی تدوین وتہذیب کی، ان کے مطالعہ کے بعد علم کے میدان میں یورپ کی برتری کے دل سے کبھی قائل نہیں ہوسکتے۔ اس مرعوبیت کی ایک نمایاں مثال اس دور میں بھی ہمارے سامنے آتی ہے جب طالبان