کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 106
پروری سے ہی عداوت ہے اور وہ اس میں توازن واعتدال پیدا کرنے کی نیک خواہش رکھتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کفر مسلمان سے اس وقت تک راضی ہونہیں ہوسکتا جب تک مسلمان اپنا دین چھوڑ کر ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں … ﴿وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَنْ نَصَارٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم﴾ البقرة : 120 کفر کو اصل خوف اسلام کی اساسی تعلیمات سے ہی ہے او روہ چاہتا ہے کہ ﴿يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِوٴُا نُوْرَ اللهِ بِأفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ﴾ ”یہ لوگ اللہ کے نور کو منہ سے (پھونکیں مار مارکر) بجھانا چاہتے ہیں ، لیکن اللہ اپنے نو رکو پورا کرکے رہے گا چاہے یہ بات کافروں کو بری ہی لگے۔“ (الصف: 8) بیسیویں صدی میں یورپ کے کئی نامور مفکر اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ جب تک قرآنِ کریم اس دنیا میں موجود ہے دنیا میں امن نہیں ہوسکتا، نعوذ باللہ۔ انکے کہنے کامقصد یہ ہے کہ قرآن کریم کی موجودگی میں کفر کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو سکتی اور اپنی حکومت کو وہ امن وانصاف پروری سے باور کراتے ہیں ۔نائن الیون کے بعد ان ہفواتی خیالات کا اظہار بارہا کیا گیا: واشنگٹن ٹائمز میں ایک امریکی دانشور اپنے مضمون میں صراحت سے لکھتا ہے کہ ”مسلمانوں کی دہشت گری کی جڑیں خود قرآن کریم کی تعلیمات ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ایک دہشت گرد اور انتہا پسند اقلیت نے مسلمانوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔بلکہ اصل مسئلہ خود قرآنی تعلیمات کا پید اکردہ ہے۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ قرآ ن کریم کی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر اعتدال پسند مسلمانوں کو آمادہ کیا جائے۔“ ایسے ہی ایک یورپی ادارے انٹرنیشنل کرائسز مینجمنٹ گروپ نے قرآن وسنت پر مبنی معلومات کو نفرت انگیز قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے نفرت انگیز مواد کی تعلیم کو روکنے کے انتظامات کرے۔ مدارس سے وابستہ چونکہ قرآن وسنت کی بنیاد پر اسلامی تہذیب وتمدن کو قائم کرنے کے داعی ہیں اور وہ براہ راست وحی کے ان دونوں ماخذوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ، اسی لیے یہ لوگ عالمی کفر کو اپنے سب سے بڑے دشمن نظر آتے ہیں ۔کوئی بھی مسئلہ پیش آجانے پر قرآن واحادیث سے رجوع اوراس کی بنیاد پر اس کے حسن وقبح کا فیصلہ کرنا اسلامیت کا تقاضا