کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 105
لوگ ہیں جو دورانِ تعلیم قرآنِ کریم کی تفسیر کے ساتھ احادیث ِنبویہ کو سبقاً سبقاً پڑھتے ہیں ۔ جب کہ حکومتی سطح پر قرآن وحدیث کی تعلیم جزوی بنیادوں سے آگے نہیں بڑھی ۔ کتاب وسنت کے ساتھ ائمہ اسلاف کے وارث اور ان کے علمی کارناموں کے جانشین مدارسِ دینیہ کے علما ہی ہیں ۔چودہ سو سالوں میں مسلمان اہل علم نے جس قدر شاندار علمی لٹریچر تیار کیا ہے، ان سے آگہی بھی انہی کو حاصل ہے۔اسلامی تاریخ میں علوم کے زرّیں دور سے اُنہیں آشنائی ہے۔اور یہ کتاب وسنت اور ائمہ اسلاف کے فرامین ہی ہیں جو انسان کو ایمان وایقان کی دولت فراہم کرتے ہیں ۔قربانی کا ایسا جذبہ جس کے بعد انسان اپنی جان بھی اللہ کی راہ میں دینے پر آمادہ ہوجائے ، کتاب وسنت کے بلاواسطہ احکامات کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِنہی مدارس سے جہاد کی تحریکیں پھوٹتی ہیں اور زمانے کی ظالم قوتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوجاتی ہیں ۔جہاد کی ان تحریکوں کو مدارس کے فضلا نے جتنے نوجوان فراہم کئے ہیں ، اس کا جائزہ چشم کشا ہے۔ ایسے ہی جو لوگ فدائی حملے کے لئے جان ہتھیلی پر لے کر آگے بڑھتے ہیں ، وہ قرآن وسنت کے ولولہ انگیز وعدوں کے بل پر اپنی جان کا یہ سودا کرگزرتے ہیں ۔ دورِ حاضر کے ذہین دماغ اس امر پر آج بھی حیران ہیں کہ کس طرح ایک انسان اپنی جان کا بھی نذرانہ پیش کردیتا ہے، لیکن اسلامی عقائد کا مطالعہ کرنے والے شخص کے لئے یہ باتیں کسی اچھنبے کی حیثیت نہیں رکھتیں ۔اسلامی تاریخ ایسے جانثاروں سے بھری پڑی ہے، اور ہمیشہ سے کفر ان مجاہدوں سے لرزہ براندام رہا ہے۔ مدارس کے علما کے ہاتھوں میں اللہ کے قرآن اور نبی کے فرمان کے ذریعے ایسی زبردست قوت موجودہے کہ اس سے وہ مسلمانوں کو کسی بھی مرحلہ پر آمادۂ جہاد کرسکتے ہیں ۔جہاد کرنے والے سب مدارس کے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے لیکن ان کے جذبات کوگرمانے والے اور شوقِ شہادت پر اُبھارنے والے، بہتر جزا کا یقین پیدا کرنے والے مدارس کے فیض یافتہ علما ہی ہیں ۔ مدارس کے فیض یافتگاں کے پاس وحی کا جوہر ایسا عظیم الشان امتیاز ہے، جس کے آگے دنیا کی کوئی قوت ٹھہر نہیں سکتی، ضرورت صرف اس جوہر کو سمجھنے او راس کے درست تقاضوں پر عمل کرنے کی ہے۔ بعض بھولے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو ہماری مزعومہ بنیاد پرستی، دین پسندی اور جہاد