کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 104
کرنے والے تمام بچوں کا 10 فیصد مدارس میں پڑھتے ہیں ۔ ایسے ہی برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائمز گروپ کے اس دعوے کو بھی غلط قرار دیا گیا کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کل زیر تعلیم بچوں کا 33 فیصد ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس میں نہ تو داخلے میں کوئی تیزی آئی ہے ، نہ ہی مدارس کے طلبہ کی مجموعی تعداد اس قدر زیادہ ہے۔“(ہفت روزہ ’غزوہ‘لاہور :4 تا 10/ مارچ 2005ء)
حکومت ِپاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں درسِ نظامی کے صرف 14 ہزار دو سو دس مدارس کام کررہے ہیں اوران کی بڑی تعداد بھی سرائیکی بیلٹ اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں ہے۔ایسے ہی ملک میں قائم 11 /لاکھ مساجد کے ساتھ 97 ہزار چھ سو مدارس حفظ کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ مدارس کے مکمل اعداد وشمار کے لئے ماہنامہ ساحل کراچی کے شمارہ فروری 2000ء کا صفحہ 89 اور 90 ملاحظہ کریں ۔
عجب تماشا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان میں مدارس کی طرف سے دی جانے والی تعلیم کو وزراتِ تعلیم کسی قطار شمار میں ہی نہیں لاتی، نہ ہی سالانہ تعلیمی بجٹ میں ان کے لئے کوئی حصہ مختص کیا جاتا اور ان کے بارے میں کوئی تعلیمی پالیسی بنائی جاتی ہے۔
ان مدارسِ دینیہ کو وزارتِ داخلہ ڈیل کرتی ہے جو دہشت گردی کے نقطہ نظر سے ان کی نگرانی کرتی ہے ، دوسری طرف انگریزی تعلیم کے ایسے ادارے جو انگریز کی حاکمانہ وراثت کو اس ملک میں تحفظ فراہم کرتے ہیں ، ان کو اربوں کی اپنی جائیدادوں کے باوجود حکومت باقاعدہ اہم گرانٹ دیتی ہے۔ ان اداروں میں ایچی سن کالج اور لارنس کالج، گھوڑا گلی جیسے ادارے شامل ہیں جن کا اس ملک میں واحد مقصد ِجواز یہاں انگریز کے فکری وارث پیدا کرنا ہے تاکہ یہاں وہ حکومت کی زمامِ کار سنبھال سکیں ۔ ایسے اداروں سے فیض یافتہ لوگ بھی تعداد میں کم ہونے کے باوجود حکومت میں غیرمعمولی اہمیت حاصل کرتے ہیں اور زیادہ تر حکمران یا اراکین اسمبلی ایسے تعلیمی اداروں کے ہی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔ ان اداروں کے فضلا کو بھی حاصل ہونیوالا یہ ایسا امتیاز ہے جو ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ان کے وزن کو بڑھا دیتا ہے۔
(2) مدارس کی قوت کا اصل جوہر کتاب وسنت میں پوشیدہ ہے۔اسلام قرآن وحدیث کا نام ہے اور پاکستان میں کتاب وسنت تک ڈائریکٹ رسائی صرف علماء مدارسِ دینیہ کی ہے۔یہی وہ