کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 103
ہیں یا داعی اور خطیب۔ مدارس کے ان طلبہ کو منبر نبوی کا تقدس ملتا ہے، جس سے کالج یونیورسٹی کے طلبہ محروم رہتے ہیں ۔منبرنبوی کے اس تقدس کے ساتھ ساتھ اگر وہ معقول طرزِ استدلال بھی اپنالیں تو عوام ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ۔خطبہ ہائے جمعہ کے پلیٹ فارم کے ذریعے وہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے علماء کرام کا عوام الناس سے سب سے گھرا رابطہ ہوتا ہے۔ جب سے نئے ذرائع ابلاغ : اخبار، ٹی وی اور کیبل متعارف ہوئے ہیں ، ان کے ذریعے عوام کا رابطہ صحافیوں ، اداکاروں سے اور فلم ڈراموں میں پیش کردہ خیالات سے گہرا ہوگیا ہے، اس سے قبل عوام الناس سے روزمرہ ابلاغ کا حق صرف علما ء کرام کے پاس تھا۔ان نئے ذرائع ابلاغ سے اس تعلق میں کافی کمی آئی ہے، اس کے باوجود مخلص اور متقی علما کا تعلق آج بھی عوام سے گہرا ہے۔
یہاں واضح رہے کہ مدارس کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے کہ پاکستان میں 7 لاکھ سے زائد بچے 10 ہزار مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔دراصل بھرپور انداز کی مہم کو جواز دینے کے لئے ان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے یا یہودی لابی کے زیر اثر ذرائع ابلاغ یہ پروپیگنڈہ کر کے اشتعال پیدا کرتے ہیں ۔ ان مدارس میں ان تمام مدارس کی تعداد کو شامل کیا جاتا ہے جو ہرمسجد کے ساتھ کام کررہے ہیں اور ان میں ناظرہ قرآن پڑھنے والے بچے بھی شمار کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ وہ دینی مدارس جو دین کی تعلیم دے رہے ہیں ،کا اگر حقیقی جائزہ لیا جائے تو لاہور جیسے علمی شہر میں ان کی تعداد 30، 40 سے ہرگز زیادہ نہ ہوگی۔ یہی بات ورلڈ بینک نے اپنی تازہ سٹڈی رپورٹ میں کہی۔ خبر کا متن ملاحظہ ہو:
”دینی مدارس کے خلاف مقامی اورمغربی ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ غلط ہے۔ ورلڈ بینک امریکی نائن الیون کمیشن کی رپورٹ درست نہیں کہ پاکستان میں لاکھوں خاندان بچوں کو دینی مدارس میں داخل کراتے ہیں ۔
ورلڈ بینک کی طرف سے تیار اور شائع کیے گئے ورکنگ پیپر کے مطابق مقامی اور مغربی ذرائع ابلاغ مدارس کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں ۔ رپورٹ میں مغربی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈے کو غلط قرار دیا گیا کہ پاکستانی مدارس میں طلبہ کے داخلے میں تیزی آئی ہے اور واشنگٹن پوسٹ کے اس دعوے کی تردید کی گئی کہ پاکستان میں تعلیم حاصل