کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 102
ان اسلامی احکامات پر زمانے بھر کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے یکسوئی سے آج تک عمل پیرا ہیں ۔ اور ہم نے گویا یہ فرض کررکھا ہے کہ یہ سب صرف مولوی کی شناخت ہے جبکہ ایسا ہرگزنہیں ، مذکورہ بالا تمام احکامات مستحب ومباح کی بجائے ہر مسلمان پر وجوب کے درجے میں لازم ہوتے ہیں ۔ یہ تمام اوصاف انسان کی شخصی مضبوطی اور فکری استحکام پر دلالت کرتے ہیں ۔اور قوموں کی برادری میں خودی کے ساتھ جینے کے لئے اپنی ثقافت کو اپنانے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مدارس کے یہ لوگ باہمی میل جول سے اور اپنے خطبات کے ذریعے اسلامی ثقافت کو مسلمانوں میں زندہ وپائندہ رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طالبا ن کے افغانستان پر جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس کا جواز یہ تھا کہ طالبان کی یہ حکومت اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے امریکی تہذیب (سویلائزیشن) کو خطرہ ہے۔مغرب اس دور میں جس طرزِ فکر اور تہذیب وتمدن کو پروان چڑھانا چاہتا ہے، یہ اس کے بالمقابل ایک او رتہذیب قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ گویا مغربی تہذیب کے متبادل ایک تہذیب کی دعوت ان مدارس سے پھوٹتی ہے۔
مدارس کی قو ت کے پس پردہ عوامل
مدارس کی مذکورہ بالا اہمیت اور کارکردگی ان سے وابستہ حضرات کی محنتوں میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ متعدد ایسے عوامل ہیں ، جن سے یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں :
(1)کیا وجہ ہے کہ مدارس کو نہ وہ مادّی وسائل حاصل ہیں اور نہ ہی سرکاری تعلیم کے دیگر اداروں جیسے انسانی وسائل۔ ایسے ہی مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد سکول وکالج میں پڑھنے والے بچوں کی کل تعدادکا دو، تین فیصد بھی نہیں ۔ اس کے باوجود ان کا اثرورسوخ اپنی تعداد کی نسبت سے کہیں زیادہ ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مدارس کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کا ایک فاضل اپنے اثر ورسوخ کے اعتبار سے دیگر تعلیمی اداروں کے فضلا پر برتری رکھتا ہے۔اگر لاہور کے کالجوں ، یونیورسٹیوں سے ایک سال میں 10 ہزار لوگ تحصیل علم کرکے نکلیں اور دوسری طرف لاہور کے دینی مدارس سے 200 کے لگ بھگ طلبہ فارغ التحصیل ہوں تومدارس کے ان طلبہ کے فرض کی نوعیت یہ ہے کہ انہیں عوام کو رہنمائی دینا ہوتی ہے اور عوام کو اُنہیں سننا پڑتا ہے، وہ اُستاد بنتے