کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 101
پیش کردہ تہذیب وتمدن کے مقابل کوئی دوسرا تہذیبی تصور متعارف یا زندہ نہیں رہنا چاہئے۔ جبکہ یہ دینی مدارس ہی ہیں جو مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے جوڑے رکھنے کا مضبوط وسیلہ ہیں ۔مساجد کے خطبا جو مدارس کے ہی فیض یافتہ ہوتے ہیں ، پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ سامعین کے ذ ہنی معیار کے پیش نظر گفتگو نہیں کرتے، لیکن اس کے باوجود سامعین کو اپنے شاندار ماضی پر مبنی قصے سنا کر جس طرح اسلام سے منسلک کئے رکھتے ہیں ، اُ س سے ان کا اعتقاد متزلزل نہیں ہوتا۔ آج پاکستان کا ہر مخلص مسلمان خلافت ِراشدہ کا دور لوٹنے کی تمنا دل میں لئے پھرتا ہے، او راس کو تصور میں ’دنیاوی جنت ‘ سے تعبیر کرتا ہے، جب صلوٰة و زکوٰة کا نظام اس طرح قائم ودائم ہو کہ زکوٰة لینے والا میسر نہ آئے تو اس کے پس پردہ جمعہ کے خطیب سے سنے ہوئے وہ واقعات ہیں جو وہ اپنی زندگی میں تکرار سے سنتے رہتے ہیں ۔ اس سے کم از کم اپنے شاندار ماضی سے ان کا تعلق جڑا رہتا ہے او رجمعہ کا خطیب اسلام سے ان کایہ تعلق ٹوٹنے نہیں دیتا۔ اس دور زوال میں خطبا کی یہ خدمت بھی بڑی قابل قدر ہے!! دینی مدارس سے فیض یافتہ ان علما کی مساعی کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی ثقافت ابھی تک کسی درجے میں موجو دہے۔ جن ممالک میں یہ مدارس موجود نہیں وہاں کے مسلمان پوری طرح مغربی تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں ۔ ایسے ممالک میں مصر، شام، اُردن ، فلسطین اور مراکش وغیرہ کی مثال دی جاسکتی ہے۔جو لوگ دنیا کا سفر کرتے ہیں ، ان سے پاکستان اور دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کا ثقافتی فرق ڈھکا چھپا نہیں ۔ آج بھی ہم ذرا غور سے دیکھیں تو اسلام کی لازم کردہ احکامات کی پاسداری سب سے زیادہ دینی مدارس سے وابستہ لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے۔ داڑھی اور برقعہ ، صرف مولوی کی شناخت نہیں ، بلکہ نبی کریم کے فرامین کی روسے ہرمسلمان پر فرض ہے۔ شلوار کا ٹخنوں سے بلند ہونا یا غیر مسلموں جیسی وضع قطع اختیار نہ کرنا اور ان کی مشابہت والا لباس نہ پہننا کوئی اختیاری امر نہیں بلکہ ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے، لیکن ان اُمور کی بھرپور پابندی مدارس سے وابستہ لوگوں میں نظر آتی ہے۔ جس طرح ہم لوگ اسلامی تقویم (ہجری کیلنڈر) کو بالکل نظر انداز کرچکے ہیں ، ایسے ہی اسلامی تعلیم کی ضرورت بھی ہم لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکی ہے، لیکن دینی مدارس سے فیض یافتہ لوگ جنہیں ہم ’ملا‘ یا ’مولوی‘ کے نام سے گویا ثقافتی گالی دیتے ہیں ،