کتاب: محدث شمارہ 286 - صفحہ 100
کے پاس ہے۔ آج پاکستان قوموں کی صف میں بہت پیچھے کھڑا ہے، معاشی سطح پر غیروں کا محتاج ہے، سیاسی نظم اور سفارتی ڈپلومیسی میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہے تو ا س کے ذمہ دار مدارس کی بجائے یہی جدید تعلیم کے اداروں کے فاضلین ہیں ۔ ہم قومی سطح پر جس انحطاط اور کمزوری کا شکار ہیں ، یہ دینی مدارس بھی معاشرے کے انہی افراد کے قائم کیے ہوئے ہیں ۔ ان سے غیرمعمولی کردار کی توقع کرنا اور اپنے مجموعی قومی رجحانات یا کردار کو نظرانداز کردینا کہاں کا انصاف ہے!! مدارس کا کردار اسی حد تک ہے کہ اُنہوں نے ہماری روایات کو تحفظ عطا کررکھا ہے، اور ہماری دینی ضروریات میں انہوں نے تعطل نہیں آنے دیا،اس میدان میں ہم مدارس کے احسان مند ہیں ۔ اگر حکومتی، تعلیمی ،ابلاغی ، عوامی، انسانی اور مالی سطح پر ان کا جائز مقام اور وسائل اُنہیں دیے جائیں تو یہ مدارس روایات کے تحفظ سے آگے بڑھ کر نئے زمانے کے چیلنج کا سامنا بھی کرسکتے ہیں ۔ فی الوقت ان کے اِسی کردار کا اعتراف کرنے کی ضرور ت ہے، یہی بات علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مدارس پر اعتراض کرنے والوں سے کہی تھی: ”ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو، کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا ، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اَندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ او رقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دِلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت او ران کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔“ اصل ا عتراض دینی مدارس کے خلاف جاری اس مہم کے پس پردہ مغرب کا در اصل یہ تصور ہے کہ اس دور کا انسان بہت ترقی کر چکا ہے ، اور اس ترقی کے بعد انسان کا ماضی کی طرف رجوع کرنا قدامت پسندی اور بنیاد پرستی ہے۔ ایسے ہی اس دور میں مغرب نے علوم کا جو انداز واستدلال اور حوالہ متعارف کرایا ہے، اُسے ہی اس دور کا واحد معیار ہونا چاہئے۔ اور مغربی ممالک کی