کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 93
خطوط ’محدث‘ کے نام بعض اہم مکاتیب (1)مکتوب مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ مدیر ادارۂ علوم اثریہ ، فیصل آباد عزیز محترم جناب مولانا حافظ حسن مدنی صاحب زادكم الله عزًا وشرفًا السلا م عليكم ورحمة الله وبركاته ’قتل غیرت کی سزا‘ کے حوالے سے آپ کی نگارشات اور اس سلسلے میں محدث کی کاوشیں نہایت قابل ستائش ہے۔فتنہ پرداز اور الحاد پسند طبائع جس دھیمے انداز سے دائرۂ عمل میں ہیں، اسے عموماً سادہ لوح حضرات سمجھنے سے قاصر ہیں۔آپ نے جو اُن کو بے نقاب کیا، اس پر آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اس محنت کو قبول فرمائے اور فتنوں کے سامنے سد ِسکندری بنانے کے لیے آپ کو سکندر بنا دے!! اس حوالے سے ایک تراشہ ارسال خدمت ہے۔شیخ احمد رومی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: من رأىٰ رجلا يزنى يحل له أن يقتله، وإنما لا يقتله لأنه لا يصدق أنه قتله لأنه رأه يزني (المجالس الأبرار،المجلس السادس والسبعون) یہ المجلس السادس والسبعون کے آخری الفاظ ہیں۔اس سے نفی قتل کا باعث واضح ہو جاتا ہے گویا قتل کی ’عدمِ اجازت‘ ایک دوسرے فتنہ کے سد باب کے لیے ہے۔ یوں نہیں کہ اگر کوئی قتل کر دے تو وہ مستوجب ِقتل ہے۔محترم مدنی صاحب اور باقی سب اخوان کی خدمت میں سلام عرض ہے۔ (2)مکتوب مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ عزیز ِمحترم حافظ حسن مدنی السلا م عليكم ورحمة الله وبركاته ’محدث‘ کا نومبر کا شمارہ نظر سے گزرا ،بہت خوشی ہوئی۔ قتل غیرت اور دیگر متعلقہ اُمو رپر آپ حضرات نے سیر حاصل بحث کر کے تمام دینی حلقوں کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ بالخصوص آپ کے مضمون پر مزید مسرت اور اطمینان سے بہرہ ور ہوا ۔اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی کاوشوں کو قبول فرمائیں اورنتائج وثمرات سے نوازیں ۔آمین! اس حوالہ سے میں ایک بات کی طرف احباب کو توجہ دلانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہوں کہ ہمارے معاشرہ میں علاقائی کلچر اور قبائلی روایات سے کوئی منظم اور موثر آواز بلند نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کو اس خلا سے فائدہ اُٹھانے کا موقع مل رہا ہے اور وہ عورتوں کے حقوق کی چمپئن بن گئی