کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 91
جیساکہ گزر چکا ہے کہ ہر اسم کا تثنیہ آخر میں ان اور ین کا اضافہ کرنے سے بنتا ہے،اب وضاحت کی جا سکتی ہے کہ ان کب اور ين کب استعمال ہو گا،مختصر وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ اگر تثنیہ کا لفظ مرفوع یا مجرور ہے تو ان کے ساتھ ہو گا مثلاً رَجُلَانِ ، اگر مفتوح یا مجرور ہے تو ین کے ساتھ یعنی رَجُلَيْنِ آپ لکھیں گے بِرَجُلَيْنِ جو ب کی وجہ سے مجرور ہے ۔ اسی طرح جمع مذکر کے بارے میں بتلایا تھا کہ واحد کے الفاظ کے آخر میں ون یا ین لگا دیں ، مزید تشریح یہ ہے کہ اگر جمع کا لفظ مرفوع ہے تو ون ، اگر مفتوح یا مجرور ہے تو ین کے ساتھ ہو گا۔میرے تجربہ کے مطابق اسی مختصر وضاحت یا علامت اِعراب کو آگے چلا کرإنَّ وأخواتها وکان وأخو اتها وليس ولا نافية للجنس وغیرہ اسی طرح مسند اور خبر ، فاعل و مفعول کے اعراب کی پریکٹس کروائی جا سکتی ہے ۔ مفرد الفاظ کا اعراب تو واضح ہوتا ہے۔تثنیہ و جمع کی بابت اس مختصر بات سے اور اس کی مناسب پریکٹس اور تطبیق سے طویل نظری تشریحات سے بچا جاسکتا ہے۔ افعال اور اسما کی شناخت کے حوالہ سے یہ علامت بھی بتائی جاسکتی ہے کہ ال اور تنوین ہمیشہ اسموں پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بنیادی ضرورتوں کے حوالہ سے صرف ذخیرۂ الفاظ اخذ و جمع کرنے کا کام باقی رہ جاتا ہے جو طالب علموں نے خود کرنا ہے۔ اس مرحلہ پر آپ ترجمہ کا کام بھی روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے آسان جملوں کے ساتھ شروع کرا سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عربی الفاظ و جملوں میں ساخت سمجھنے یا سمجھانے کے حوالہ سے مذکورہ باتیں کافی ہیں۔ جب طالب علم چلنے کے مرحلے میں آجائیں تو نازک موضوعات بھی چھیڑے جاسکتے ہیں۔ ہمارے نبی علیہ السلام کی ہمیں تلقین ہے ، يَسِّرُوْا وَلا تُعَسِّرُوْا مگر ہم نے نہ جانے کسی سوچ کے پیش نظر تعلیم عربی کے میدان میں مشکلات کو دعوت دی رکھی ہے اور اُنہیں مبتدی طلاب کا دردِ سر بنا رکھا ہے۔ اب کوئی بتلائے کہ شرح مائة عامل میں موضوع کے اعتبار سے کتنی آسان باتیں ہیں لیکن ہمارا طریق تدریس کیا ہے؟ترکیب کا سلسلہ تو ایک مشق تھی جسے ہم نے مقصد بنا لیا، اسی طرح کافیہ کا نفس مضمون سادہ پڑھا جائے، لفظی و منطقی باریکیوں کی خاردار جھاڑیوں میں اُلجھنے کی کیا ضرورت ہے؟آخری نصیحت یہ ہے کہ کتب ِنحو و صرف کی