کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 90
اس کے بعد مضارع کے تثنیہ و جمع مذکر میں جو ن ہے ،اس کو ہٹا دیں جیسے تَکْتُبَانِ / تَکْتُبُوْنَ سے لَا تَکْتَبَا / لَا تَکْتُبُوْ (أنتن)کا نون باقی رہے گا،جیسے لاتکتبنَّ نفی: کسی کام کے نہ کرنے یا کام کے نہ ہونے کی بابت بتلانانفی کہلاتا ہے اور یہ نفی ماضی اور مضارع دونوں میں ہو گی ۔ نہی بنانے کا طریقہ: یہ ہے کہ آپ ہر دو ، یعنی ماضی و مضارع (معلوم و مجہول)کے شروع میں لاَ یا مَا لگادیں، بس اور کوئی تبدیلی نہ ہو گی مثلاً ماضی : کَتَبَ سے مَا کَتَبَ کُتِبَ سے مَا کُتِبَ مضارع : يَکتُبُ سے لا يَکْتُبُ يَُکْتَبُ سے لاَ يُکْتَبُ چو تھے دن کا درس اختتام پذیر ہوا ، اب ذخیرۂ الفاظ اور نحو واِعراب کی تفصیلات … میری نظر میں اعراب کی چند باتیں بتلانے سے ضرورت تو پوری ہو سکتی ہے،البتہ اگر کوئی طالبعلم شوق کی فراوانی رکھتا ہے، عربی زبان کی باریکیوں پر مطلع ہونا چاہتا ہے تو شوق کی کوئی ا نتہا نہیں اور اس زبان یا کسی بھی زبان کے علم کی بھی کوئی انتہا نہیں ٭ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست آئیے! نحوی موشگافیاں دیکھئے، بصری وکوفی اعرابی تفصیلات دیکھیں لیکن بنیادی ضرورتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس سے واسطہ بھی زیادہ تر ان لوگوں کو پڑھتاہے جوعربی بولنا یالکھنا چاہیں، البتہ عربی سمجھنے کے لئے اس کے بغیر بھی گزارا چل سکتا ہے۔ چونکہ اکثر مسلمانوں کی عربی فہمی کامقصد قرآن وحدیث نبوی کے مطالعے سے زبان کا حجاب دورکرنا ہوتاہے، اس لئے ان کو اس کی تفصیلات میں جانے کاخاص فائدہ نہیں۔ البتہ ترجمہ میں بعض علامتیں اس سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ اعراب کی بابت چند ضروری بنیادی قواعد چونکہ عربی زبان میں الفاظ مرفوع (پیش والے)،مفتوح (زبر ) اور مجرور (زیر) ہوتے ہیں ، درج ذیل چند اہم باتوں کی وضاحت بورڈ کو استعمال کرتے ہوئے کی جاسکتی ہیں: ٭ حروف ِجر: یہ صرف اسما ء پر آتے ہیں ،(افعال پر نہیں ) اور ان اسما کے آخری حرف پر زیر ہوتی ہے مثلاً برجلٍ اگر اسم پر الف لام بھی ہو توایک زیر ہوگی مثلاً بِالرَّجُلِ