کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 9
’مولویوں‘ کا اسلام؟
یہ ملک ’اسلام‘ کے نام پر بنا تھا۔ پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے اسلام کے نظامِ حیات کی عملی تجربہ گاہ کا حصول پاکستان کا اوّلین مقصد تھا۔ مگر قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی یہاں کے مٹھی بھر سیکولر اور اشتراکی دانشوروں نے ہندو ارکانِ اسمبلی کے ساتھ مل کر پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی جدوجہد شروع کردی۔ انہوں نے متواتر پراپیگنڈہ کیا کہ اگر پاکستان میں اسلام کو نافذ کیا گیا تو اس ملک پر مولویوں کا قبضہ ہوجائے گا جو اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کریں گے۔ بدقسمتی سے یہاں زمامِ اقتدار بھی ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں رہی جو فکری طور پر یاتو سیکولر تھے یا اسلام سے ان کی وابستگی گہری نہ تھی۔لہٰذا اسلامی نظام کے نفاذ کو موٴخر کرنے کے لئے نت نئی اصطلاحات وضع کی گئیں اور خالص ’اسلام‘ کی جگہ اس کے ساتھ مختلف سابقے اور لاحقے نتھی کئے گئے۔شروع شروع میں مغرب کے اتباع میں ’اسلامی فلاحی مملکت‘کی اصطلاح وضع کی گئیں۔ مقصود یہ تھا کہ محض ’اسلام‘ قابل قبول نہیں ہے، جب تک کہ ’فلاحی‘ کا سابقہ اس کے ساتھ درج نہ کیا جائے۔ اس اصطلاح کے وضع کرنے میں معذرت خواہانہ انداز اس لئے اپنایا گیا کہ اہل مغرب ’اسلامی ریاست کو تنگ نظری پر مبنی ریاست‘ ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ گویا ہمارے دانشوروں نے اعتراف کرلیاکہ ’اسلام‘ اپنے وسیع تر معنوں میں فلاحی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا، اسی لئے اس کے ساتھ ’فلاحی‘کا اضافہ ضروری ہے۔
پھر اس ملک میں مارکس اور ماوٴ کے پیروکاروں کا غوغا بلندہوا۔ ان میں سے ایک ذاتِ شریف نے تجویز کیا کہ یہاں کے مسلمان ’سوشلزم‘ کو قبول نہیں کریں گے، البتہ اس کے ساتھ ’اسلامی‘ کا سابقہ لگا دیا جائے تو پھر بہت کم لوگ اعتراض کریں گے۔ ایک طویل عرصہ تک ہمارے دانشور ’اسلامی سوشلزم‘ کو ہی اس ملک کے بدنصیب عوام کی فلاح و ترقی کی واحد ضمانت بنا کر پیش کرتے رہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دھائی میں مغربی دانشوروں نے اسلام کے لئے ’پولیٹیکل اسلام‘ اور ’عسکریت پسند‘ اسلام کی اصطلاحیں متعارف کرائیں۔اسی زمانے میں اسلام کو ’فنڈامینٹلزم‘ بناکر بھی پیش کیا۔ ہمارے مغرب نواز دانشوروں کی زبان پر یہ اصطلاحات اس قدر چڑھیں کہ وہ ان کی مالا جپتے نظر آئے، اُٹھتے بیٹھتے پاکستان کے اسلام