کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 86
گی اور اس کے دونوں پاؤں رکاب میں داخل ہو جائیں گے تو پھر جس کا جتنا شوق یا ضرورت ہو گی، اتنا وہ اسے کام میں لائے گا اور اس کے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل کرے گا، کبھی مبالغہ کے صیغوں تک پہنچے گا توکبھی اسم آلہ و ظرف تک، خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنے طالبعلموں کو ذَهَبْتُ إلَی الْحَدِيْقَةِ للنُّزه سکھلانا ہے ،تنزَّهْتُ فِيْ الْحَدِيْقَةِ کہنا وہ خود سیکھ جائیں گے۔ یہاں ایک واقعہ درج کرنا مناسب ہو گا جس سے عربی کی تعلیم کے سلسلہ میں ہماری موجودہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران جب میں تعطیلات میں گھر گیا تو ایک دن مدرسہ کی ابتدائی کلاسوں کا ایک لڑکا کاغذ قلم لے کر آیا کہ استاذ صاحب نے سائیکل پر مضمون دیا ہے کہ اس کو عربی میں ترجمہ کر لاؤ۔ و ہ مجھ سے ا س سلسلے میں مدد کا خواہش مند تھا۔مضمون کچھ اس طرح تھا : ”سائیکل کا ایک ہینڈل ہے، دو پیڈل ہیں اور ایک کاٹھی ہے۔ اس کے دو پہئے ہیں جن ان میں کُتے ہیں۔ “ پہیوں کے کتے سائیکل کاریگروں کی اصطلاح ہیں۔ میں نے کہا بھائی اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہونے کے باوجود مجھے سائیکل کے اجزائے ترکیبی کے نام تک نہیں آتے البتہ آخری جملہ ’ ان میں کتے ہیں‘کی عربی آتی ہے کہ کتوں کو عربی زبان میں کِلاَب کہتے ہیں ، لہٰذا ترجمہ ہو گا فیھما کلاب۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عربی کو اس کے آسان پہلووٴں سے پکڑ یے اور روز مرہ استعمال کے عام الفاظ سے آغاز کرایئے، شروعات ہو جائیں گی تو راستے وا ہوں گے، نئی منازل نمو دارہوں گی، چھوٹی کھائیاں سَر کرالیں تو چوٹیاں سر کرنے کے راستے خود سامنے آجا ئیں گے۔ چوتھا دن : ’ اسم فاعل‘ مختصر تعریف:کسی بھی کام کرنے والے کے بارے میں جو لفظ بتائے ، اس کو اسم فاعل کہتے ہیں۔ مثلاً لکھنے والا کَاتِبٌ، بولنے والا قَائِلٌ اس میں زمانہ کا ذکر شامل معنی نہیں ہوتا۔ اور اس کے چھ صیغے ہوتے ہیں جو کہ ۱۴ /ضمیروں کے ساتھ استعمال ہو سکتے ہیں، یعنی لکھنے والا