کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 85
طرح ہی ہے ۔ (3)ثلاثی میں کچھ استثناء ات ہیں جو حسب ِذیل ہیں : ٭ اگر ثلاثی کے تین حرفوں میں سے ایک واو (جو عموماً شروع میں ہوگی) یا الف / ہمزہ (اگر شروع میں یا درمیان میں ہو )مثلاً وَعَدَ، أَمَرَ، سَأَلَ،قَالَ تو امر بناتے ہوئے اس و ا و اور الف کو ہٹادیں اور شروع میں الف لگانے کی ضرورت نہیں ، فعل امر کا أَنتَ کا صیغہ بن جائے گا مثلاً وَعَدَ سے عُدْ أَمَرَ سے مُرْ سَأَلَ سے سَلْ قَالَ سے قُلْ باقی گردان کا وہی طریقہ اور وہی اضافے ہیں ۔میرے خیال میں اعراب اگر ابھی نہ بتلائیں تو بہتر ہے، پہلے لکھنا تو آئے ۔ ٭ ثلاثی اگر مَدَّ طرز کا ہو،َّ یعنی بظاہر دو حروف اور دوسرے پر َشدّ جو اصل میں ۳ حروف ہوئے تو اس قسم کے الفاظ محدود ہیں۔ کوئی ۱۰ / ۱۵ الفاظ ہوں گے جو زیادہ مستعمل ہیں مثلاً مَدَّ، قَدَّ، شَدَّ، قَصَّ، جَدَّ وغیرہ اس سے امر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے حرف پر جو زبر ہے اُسے پیش بنا دیں ، شروع میں اور کسی اضافہ کی ضرورت نہیں ، باقی گردان کا وہی طریقہ اور وہی اضافے ہیں، مثلاً: مَدَّ سے مُدَّ قَصَّ سے قُصَّ درس کے اختتام پر، اس درس کا خلاصہ خود یا کسی طالبعلم کی زبان سے بیان کریں اور انہیں خوشخبری سنائیے کہ کل آپ اسی ماضی ھوکے صیغہ سے اسم فاعل و اسم مفعول بنائیں گے اور اس ایک لفظ سے اسم فاعل و اسم مفعول سے کم از کم ۷۴ الفاظ بنانے کا عمل اختتام پذیر ہو گا۔ اس کے بعد کرنے کے صرف دو کام باقی ہوں گے: ایک ذخیرۂ الفاظ اور دوسرا اعراب جس کی گتھیاں سلجھانے میں وقت لگے گا۔ آپ ایک دفعہ اس عربی گھو ڑے کو سہلا کر اس پر سوار ہونے میں کامیاب ہوں، باقی مسئلہ کہ اسے دلکی چال چلانا ہے یا تیز رفتاری سے؟ جب لگام ہمارے طالبعلم کے ہاتھ میں آجائے