کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 8
جناب پرویز مشرف نے جب ’آزادی اور حریت‘کی اس زمین پر قدم رکھا تو اس سے ایک دن پہلے ہمارے اخبارات میں فرانس کے حوالہ سے خبر شائع ہوئی کہ وہاں کے مختلف سکولوں کی48 مسلمان طالبات کو سکارف پہننے کے ’جرم‘ کی پاداش میں سکول سے خارج کردیا گیا ہے۔ وہ ننھی جانیں جو سیکولر فرانسیسی معاشرے میں دین اسلام کی اعلیٰ تہذیبی قدروں کی شمعیں جلائے ہوئے اس قدر ایثار اورمستقل مزاجی کا مظاہرہ کررہی ہیں، نہیں معلوم ان کی نگاہوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت کا یہ ’روشن خطبہ‘ گزرا یا نہیں، ہماری دعا ہے کہ ان کے معصوم کان اس شعلہ نوائی سے محروم رہے ہوں اور ان کی آنکھیں یہ بیان نہ دیکھ سکی ہوں، ورنہ نجانے ان کے ننھے قلوب پر یہ بات کس قدر گراں بار ہوتی۔
ممکن ہے اپنی فہم میں صدر صاحب نے اہل فرانس کو پاکستان کے ’اعتدال پسند‘اور ’روشن خیال‘ ریاست ہونے کا یقین دلانے کے لئے ایسے بیان کی ضرورت محسوس کی ہو، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ فرانس جیسے روشن خیال اور اعتدال پسند ملک کے اربابِ اقتدار سے شکایتاً نہیں تو وضاحتاً ہی یہ دریافت تو فرماتے کہ آخر ان معصوم بچیوں نے ایسے کون سے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ ان پر تعلیم کے دروازے ہی بند کردیے گئے ہیں۔ وہ مروّت کے تقاضوں کا پورا خیال رکھتے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار تو کرسکتے تھے کہ فرانس جیسے ملک میں اگر کوئی مرد وعورت بالکل فطری لباس میں بازار میں چہل خرامی کا شوق پورا کرنا چاہے تو ریاست کا قانون اس کی اس آزادی کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا۔
اور یہ کوئی مفروضہ نہیں، گزشتہ انتخابات میں فرانس کی ایک اداکارہ جو الیکشن لڑ رہی تھیں، انہوں نے بارہا پیرس کے بھرے بازاروں میں اس ’حریت ِعملی‘ کا مظاہرہ بھی کیا۔ جناب صدر پوچھ تو لیتے کہ بے لباسی جہاں کوئی اخلاقی یا قانونی جرم نہیں ہے، وہاں معصوم بچیوں کا سکارف سے سر کو ڈھانپنا کیونکر باعث ِگرفت ہوسکتا ہے؟ہم یہ سوچنے پر اپنے آپ کو مجبو رپاتے ہیں کہ کیا یہ محض حسن اتفاق ہے کہ امریکہ کے دورہ سے قبل اور بعد جنرل صاحب اس طرح کے بیان دیتے ہیں یا یہ ان کی شعوری کاوش کا نتیجہ ہے کہ وہ اہل مغرب پر اپنی ’روشن خیالی‘ واضح کرنے کے لئے داڑھی اور برقعہ کو اپنے ذوقِ اعتدال پسندی کا تختہٴ مشق بناتے ہیں؟