کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 76
تعلیم کا ایک خاکہ ذہن میں بنتا گیا اور اسی کے مطابق تدریس کا تجربہ بھی کیا۔ اب کئی برس اس خاکہ کے استعمال اور اس کے مطابق عربی کی تدریس کرنے اور اسے مفید پانے کے بعد ’محدث‘ کے صفحات کے ذریعہ میں اسے جملہ متعلقین عربی کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ اس پر اہل علم اپنی آرا بھی دے سکیں اور بہتری کے لئے تجاویز بھی۔ اس خاکہ کا لب لباب یہ سوچ ہے کہ عربی زبان کی گہرائی اور عمق و جزئیات تک تو وہی حضرات رسائی حاصل کریں جو اس میں ایم اے یا پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہوں۔ عام طلبا کو سائنٹفک طریقہ سے اس کی بنیادی باتیں،خصوصاً اس کے الفاظ کی شناخت،جملہ کی ساخت اور صیغہ سازی یعنی علم الصَّرف کے عمل کو نہایت آسان بنا کر پیش کیا جائے۔ انھیں گھمبیر اصطلاحات، دقیق وثقیل قواعد از بر کرانے کی بجائے عربی الفاظ کی شناخت کے حوالے سے چند بنیادی باتیں بتا دی جا ئیں ، تاکہ ان کواساس بناکر باقی عمل وہ خو دکر سکیں۔ ان بنیادی باتوں کے بعد جن کی تد ریس راقم کے تجر بہ کے مطابق چار یا پانچ دن میں مکمل ہو جاتی ہے، صرف دو امر باقی رہ جاتے ہیں : (1)ذخیرۂ الفاظ: جو طالب علموں نے خود اپنی ضرورت یا شوق کے مطابق یاد کرنا ہے۔ (2)اِعراب : چونکہ عربی زبان کی ایک اہم خصوصیت اعراب ہے ،یعنی زیر زبر پیش وغیرہ کا استعمال۔ اس کو سلجھانے میں کچھ وقت اور پریکٹس درکار ہو گی جو ایک مسلسل عمل ہے۔ اعراب کی بنیادی باتیں تو ایک دو دن میں سمجھائی جا سکتی ہیں، لیکن باقی گہری تفصیلات کا سمجھنا اور ان کا ادراک ایک مسلسل عمل ہے جو طالب علم جس قدر عربی کے ساتھ منسلک رہے گا، اس کایہ علم ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا۔ اس ساری سوچ کا ماحصل ذیل کا تدریسی خاکہ ہے جس کے ذریعہ کوشش کی گئی ہے کہ مطلوبہ ضروری مہارتیں یعنی لکھنا، پڑھنا،بولنااور سمجھناحاصل ہو جائیں۔واضح رہے کہ یہ صرف ایک نقطۂ آغاز ہے، عربی زبان کی تعلیم کا مکمل اور جامع ترین اسلوب نہیں۔ بعد ازاں ہر پڑھنے والا اپنی ضرورت یا شوقِ تحسین کے مطابق اپنے دائرۂ علم کو وسیع کرتا جائے گا۔ یہاں دوباتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں: ایک بورڈ کا استعمال اور دوسرا تطبیقی انداز