کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 75
میں مسلسل کئی برس عربی نحو و صرف کی تعلیم دی جاتی ہے، ابواب الصرف کا رٹا لگایا جاتا ہے قواعد کو گویا گھول گھول کر پلایا جاتا ہے، ان سب کوششوں کے باوجود عمومی حالت یہ ہے کہ ہمارے مدارس کے فارغ یافتگان اس زبان میں اظہار کی قدرت نہیں رکھتے، نہ تحریری نہ تقریری صلاحیت؛ سرکاری جامعات و کلیات میں حالت اس سے بھی بری ہے!! عربی زبان کو ایک سرکش گھوڑا سمجھ لیا گیا ہے اور یہ باور کرایا گیا ہے کہ اس پر سواری عجمیوں کے لئے نا ممکن یا کم از کم مشکل ضرورہے۔ اب یا تو تدریسی کتب نا موزوں ہیں یا طریقہ تعلیم غیر مناسب ہے، ورنہ جس زبان کو پڑھنے پڑھانے پہ کئی برس صرف کئے جاتے ہیں ، قواعد ازبر کرائے جاتے ہیں اور صبح وشام ایک کئے جاتے ہیں، منطقی طور پر اس زبان پر مہارت ہونا چاہیے تھی۔ اگر حضرت زید بن ثابت ۱۵دن میں عبرانی زبان پڑھنے اور اس میں لکھنے کی صلا حیت حاصل کر سکتے ہیں تو اس امر کو ان کی کرامت قرار دینے کی بجائے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے ذوق وشوق کی فراوانی کے ساتھ ساتھ کوئی نہایت مناسب طریقہٴ تعلّم اختیار کیا ہوگا۔ ذوق و شوق کی فراوانی تو ہمارے طلبہ میں بھی ہے ،لیکن میرے خیال میں طریقہٴ تعلّم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ راقم الحروف گذشتہ کئی برس سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بطورِ ’معلم عربی زبان و ادب‘ خدمات انجام دے رہا ہے۔ یادرہے کہ اس جامعہ میں عربی زبان ہر شعبہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ ایک تو شعبہٴ عربی ہے جس میں بی اے ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مراحل میں ’عربی مع فنون و ادبیات‘ کی تدریس ہے۔ اس کے علاوہ باقی شعبہ جات مثلاً ایم بی اے، ایم ایس سی اکنامکس اور کمپیوٹر وغیرہ کے طلبا بھی عربی زبان (بطورِ مضمون) دو سمسٹر میں پڑھتے ہیں۔ ظاہر ہے شعبہ عربی کے طلبا تو آتے ہی عربی پڑھنے کے لئے لہٰذا اُنہیں ا س کے تمام فنون عمق اور گہرائی کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں جبکہ باقی طلبا عربی کو صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں، لہٰذا ان کے لئے عمق اور جزئیات کے ساتھ عربی کی تعلیم کی نہ ضرورت ہے نہ وقت!! اسی قسم کے طلبہ کو کئی سال تدریس کا راقم الحروف کوموقع ملا جس کے دوران عربی زبان کی