کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 74
تعلیم وتعلّم ڈاکٹر عبدالکبیر محسن ٭ عربی زبان کی تعلیم کیلئے ایک تدریسی خاکہ مشہور انگریز دانشور اور مترجم قرآن مارما ڈیوک پِکھتال جنہوں نے سالہا سال عرب ممالک کی سیاحت کرکے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھا اور پھر اسلام قبول کرکے اس کی قابل قدر خدمت کی، اپنے مقالات میں لکھتے ہیں کہ انگریزی زبان کے قواعد کی مثال عربی زبان کی وسعت کے مقابلے میں ایسی ہے گویا انگریزی کے قواعد کا وجود ہی نہ ہو۔عربی جیسی اعلیٰ زبان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام، اپنے نبی آخرالزماں اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے پسند فرمایا، اس کی وسعت اورگہرائی کی بے شمار مثالیں اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ دین اسلام کی حامل ہونے کے ناطے اس میں آسانی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے ۔ خود قرآن کہتا ہے کہ یہ قرآن نصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت آسان ہے۔ دورِ حاضر میں قرآن فہمی کے بڑھتے ذوق کی موجودگی میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ عربی زبان کی اہمیت باور کرانے کے ساتھ ساتھ عربی فہمی کے آسان اسالیب بھی وضع کیے جائیں۔ گذشتہ چند عشروں میں صرف اُردو زبان میں اس مقصد کے لئے ۳ درجن سے زائد اسالیب متعارف کرائے جاچکے ہیں اور ہر اُستاذ اپنے ذوق، تجربے اور مہارت کے مطابق اپنی سی کاوش کو اپنے حلقوں میں زیر استعمال لا رہا ہے۔انہی کاوشوں میں سے ایک اہم کو شش ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عبد الکبیر محسن کی بھی ہے، جو زیر نظر صفحات میں پیش خدمت ہے۔ البتہ اس کی ضرورت صرف قرآن وحدیث سے زبان کا حجاب دور کرکے انہیں عام فہم بنانے اور مسلمانوں میں باہمی رابطہ کی زبان کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی قبیل سے ہے۔جہاں تک عربی دانی اور عربی لسانیات کا تعلق ہے، اُن کی ضرورت نہ صرف مسلمہ ہے بلکہ زبانوں میں یہ عربی زبان کا ہی طرۂ امتیاز ہے جس کی حفاظت اُس وقت تک ہمارا دینی وملی فریضہ ہے جب تک اس زبان میں قرآنِ کریم اور فرامین نبوی موجود ہیں۔ (ح ۔م) عربی زبان کی تعلیم کے سلسلہ میں سینکڑوں رسالے و کتابچے شائقین ِعربی کی دسترس میں ہیں، اسی طرح نحوو صرف کے قواعدکے بیان اور تشریح میں بھی متعدد تالیفات موجود ہیں۔ لِکُلِّ رَجُلٍ فِیْمَا یُحَاوِلُ مَذْھَبٌکے مصداق ہر ایک فاضل موٴلف نے اپنے طور پر جس طریقہ کو بہتر سمجھا، اس کے مطابق اپنی کتاب کو ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ ہمارے دینی مدارس ٭ ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے عربی زبان و ادب ، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد