کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 7
اور بقیہ منازل سیڑھیوں کے ذریعے طے کیں۔ انہوں نے لطیف طنزیہ لہجے میں کہا کہ
”داڑھی کی برکت سے مجھے ’جبری ورزش‘ سے گزرنا پڑا۔“
فاضل صدارتی ترجمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ صدرمملکت داڑھی والوں کے متعلق اس نفسیاتی اُلجھن کا شکار کیوں ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ جن نوجوان نے صدر مشرف صاحب پر قاتلانہ حملے جیسے گھناوٴنے جرم کا ارتکاب کیا، وھ داڑھی والے تھے، تب بھی ان مٹھی بھر انتہا پسندوں کی وجہ سے پاکستان کے وہ لاکھوں بے گناہ اور دین دار افراد جو شرعی تقاضے کی تکمیل کرتے ہوئے داڑھی رکھے ہوئے ہیں؛ صدر صاحب کے اس عمومی استہزا کے سزاوار کیونکر ہوسکتے ہیں؟
ہماری اس رائے میں غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے، مگر ہمیں یہ جان کر بے حد تعجب ہوتا ہے کہ صدر صاحب کی زبانِ معجز بیان سے اس طرح کے بیانات اس وقت کچھ زیادہ ہی تواتر سے جاری ہونا شروع ہوجاتے ہیں جب وہ امریکہ جانے کا عزم فرماتے ہیں یا جب ’روشن خیالی‘ کی اس عظیم سرزمین پر قدم رنجہ فرمانے کے بعد وہ واپس تشریف لاتے ہیں۔ گزشتہ سال جب امریکہ کے دورے میں ابھی چند روز باقی تھے تو کوہاٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو ارشاد فرمایا وہ اس مضمون کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔
داڑھی اور برقعہ کے متعلق ان کے تازہ بیانات کی ’شانِ نزول‘ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ 7/ دسمبر 2004ء کو امریکی صدر جارج بش سے شرفِ ملاقات کے بعد جب جنرل صاحب انگلینڈ پہنچے تو اُنہوں نے وہاں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا، وھ بھی اس مضمون کے شروع میں نقل کیا جا چکا ہے۔
دوسرے دن وہ فرانس تشریف لے گئے تو ان کے خطاب میں بے باکی کا رنگ اور طبیعت کا بھاوٴ چڑھتے دریا کی موج بن کر اُمڈ پڑا۔ داڑھی اور برقعہ نے انکے قلب پرجو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، اس کا اظہار کرنے میں وہ مجبور دکھائی دیئے۔ اُنہوں نے اہل مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے مولویوں کو تختہ مشق بنانے کے بعد داڑھی اور برقعہ کو ایک دفعہ پھر رجعت پسندانہ اسلام کی علامت قرار دیتے ہوئے سامعین پر اپنے ’روشن خیال‘ ہونے کا رعب جمانا چاہا۔