کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 57
’جہنم‘ ذلت و رسوائی کا گھر ہے، عذاب و آلام کی خوفناک وادی، نحوست و بدبختی کا ایسا ٹھکانہ کہ جس سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں ہوسکتی اور کوئی خسارہ اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔ دلدوز چیخوں کا خوفناک منظر جن کو رقم کرتے ہوئے قلم کانپتی، آنکھیں روتی ہیں اور دل پاش پاش ہونے لگتا ہے۔ یہی اللہ کے دشمنوں ، باغیوں اور نافرمانوں کا ٹھکانہ ہے۔
آج جب کہ چھار سو کفر و طغیان کا طوفان بپا ہے۔ انسانیت ایک دفعہ پھر بھٹک کر ہولناک پستی کے مہیب و عمیق غار میں سر کے بل گر پڑی ہے۔ 15/ سو سال پہلے کا پرانا دورِ جاہلیت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ قوت کی تلوار ایک بدمست ہاتھی کے ہاتھ پڑ گئی ہے، جس نے کائنات کو جہنم زاربنا دیا ہے۔ مغرب کی حیا باختہ گندی تہذیب کواڑ توڑ کر ہمارے گھروں میں داخل ہوچکی ہے۔گذشتہ اقوام کو جن جرائم کی وجہ سے ذلت آمیز عذابوں سے دوچار ہونا پڑا،آج امت ِمحمدیہ ان سے مکمل لتھڑ چکی ہے۔ مخلوقِ خدا دنیا کی لذت کوشیوں میں منہمک خدا اور دارِ آخرت کو فراموش کرکے خود فراموش بن گئی ہے۔ اطاعت ِالٰہی سے انحراف، اللہ کی حدوں سے تجاوز، محارم کا ارتکاب عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہا ہے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ تم بھٹک کر جن راستوں پر پڑ گئے ہو ،وہ دلوں تک پہنچ جانے والی،دنیا کی آگ سے ستر گنا تیز آگ کی ایسی وادی کو لے جانے والے ہیں جسے جہنم کہتے ہیں۔ شاید ہولناک جہنم کی صورت گری ہمارے پتھر دلوں میں ایمان کی حرارت پیدا کرنے کا باعث بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کائنات کا ربّ گم کردہ راہ انسانیت کوجہنم کی اس آگ سے ڈرا رہا ہے: ﴿فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى﴾ (اللیل:14)
”لوگو! میں تمہیں دھکتی ہوئی آگ سے خبردار کرتا ہوں۔“
اسی طرح اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُمت کو آگ کے عذاب سے ڈرایا:
(أنذرتكم النار، أنذرتكم، أنذرتكم النار) (مسند احمد:17931)
”لوگو! میں تمہیں آتش جہنم سے ڈراتا ہوں، لوگو! جہنم کی آگ سے بچاوٴ کا سامان کرلو، لوگو! میں (محمد ) تمہیں جہنم کی آگ سے خبردار کرتا ہوں۔ شدتِ خوف سے لرزتی ہوئی آپ کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی اور چادر مبارک کندھوں سے نیچے گر گئی تھی۔“