کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 51
پر اس نے سماع کی تصریح کردی ہے، اس لئے تدلیس کا شبہ ختم ہوجاتا ہے، علاہ ازیں ابن اخی زہری نے بھی ان کی متابعت کررکھی ہے : حدثنا يعقوب حدثنا ابن أخی ابن شهاب عن عمه حدثني سالم بن عبدالله أن عبدالله قال کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا قام إلی الصلاة يرفع يديه حتی إذا کانتا حذومنکبيه کبر ثم إذا أراد أن يرکع رفعهما حتی يکونا حذو منکبيه کبر وهما کذٰلک رکع ثم إذا أراد أن يرفع صلبه رفعهما حتی يکونا حذو منکبيه ثم قال سمع الله لمن حمده ثم يسجد ولا يرفع يديه في السجود ويرفعها فی کل رکعة و تکبيرة کبرها قبل الرکوع حتی تنقضي صلاته (مسنداحمد: ۷/۱۳۴) ”جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک انہیں مونڈھوں کے برابر کرکے تکبیر کہتے پھر رکوع کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر کرکے تکبیر کہتے اور وہ دونوں ہاتھ رکوع میں وہیں ہوتے۔ پھر جب آپ اپنی پیٹھ کواٹھانے کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر اٹھاتے پھر سمع الله لمن حمدہ کہتے پھر سجدہ کرتے اور ہاتھوں کو سجود میں نہ اُٹھاتے۔ اور دونوں ہاتھوں کو ہر رکعت اور تکبیر میں اُٹھاتے جو تکبیر رکوع سے پہلے کہتے یہاں تک کہ آپ اپنی نماز مکمل فرماتے۔ محقق عالم شیخ شعیب الارنووط حفظہ اللھ تعالیٰ اس روایت کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یہ حدیث صحیح ہے اور یہ سند ابن اخی ابن شہاب زہری کی وجہ سے حسن ہے، اور ان کا نام محمد بن عبداللہ بن مسلم ہے اور ان سے اگرچہ شیخان (بخاری و مسلم) نے احادیث نقل کی ہیں، یہ صدوق حسن الحدیث ہیں اور اس حدیث کے باقی رجال بھی شیخین کے رجال ہیں۔ اس حدیث کو ابن الجارود (۱۷۸) اور دارقطنی نے سنن (۱/۲۸۹) میں یعقوب بن ابراہیم کے طریق اور اسی سند سے روایت کیا ہے۔ (موسوعہ مسنداحمد:۱۰/۳۱۵،۳۱۶) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے احتجاج کیا ہے کہ جسے بقیہ نے زبیدی عن زہری کی سند سے روایت کیا ہے۔ میں (البانی) کہتا ہوں کہ ابن ترکمانی نے الجوہر النقي میں یہ اعتراض کیا ہے کہ بقیہ مدلس ہے اور اس نے عن سے اسے روایت کیا ہے ،لیکن