کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 5
نہیں ہے، بہت جدید تعلیم یافتہ ،حتیٰ کہ شوبز سے تعلق رکھنے والے بھی داڑھیاں رکھ لیتے ہیں۔ 14/ اگست 2004ء کو صدر پرویز مشرف نے ایک تقریب میں معروف گلوکار جنید جمشید کے ساتھ ’دل دل پاکستان‘ والا گانا گایا۔ جنید جمشید وہ نوجوان ہے جس نے پاکستان میں پاپ میوزک کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر آج وہ تبلیغی جماعت میں شامل ہوکر ایک متشرع باریش داعی بن گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی سعید انور کی مثال ہے، کیا ایسے نوجوانوں پر کوئی اپنی رائے مسلط کرسکتا ہے؟ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے جب داڑھی دنیا کی ہر تہذیب میں مختلف صورتوں کے ساتھ تہذیبی قدر کا درجہ رکھتی تھی اور بے ریش آدمیوں کی اس طرح تحقیر کی جاتی تھی جس طرح کہ آج کا مادر پدر آزاد طبقہ متشرع حضرات کو استہزا کا نشانہ بناتا ہے۔ ذرا اُنیسویں صدی کے آخری برسوں پر نگاہ ڈالئے جب انگلینڈ میں ملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی۔ ’ملکہ حضور‘ کے خاوند شہزادہ البرٹ اور دونوں بیٹے ایڈورڈ اور جارج جو بعد میں برطانیہ کے بادشاہ بنے، سب کی لمبی داڑھیاں تھیں۔ روس کا آخری زار جو ملکہ وکٹوریہ کا عزیز تھا، لمبی داڑھی والا انسان تھا۔ انہی دنوں ملکہ وکٹوریہ کا نواسہ ولیم جرمنی کا بادشاہ تھا، اس کی بھی داڑھی تھی۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی، اسپین اور آسٹریا کے بادشاہوں کی تصاویر اُٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو اکثر باریش ملیں گے۔ لاہور میں گورنر ہاوٴس کے دربار ہال میں پنجاب کے انگریز گورنروں کی تصاویر آویزاں ہیں، ان میں سے بہت سے حضرات باریش ہیں۔ اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسیویں صدی کے آغاز میں یورپ کے معروف فلسفیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی تصاویر بھی گواہی دیتی ہیں کہ داڑھی اس وقت کے حکما و دانشوروں کو بے حد مرغوب تھی۔ کارل مارکس، سگمنڈ فرائیڈ، ٹالسٹائی، برنارڈشا، ڈی ایچ لارنس، ڈارون، ہیگل اور متعدد دیگر افراد کی گھنی اور لمبی داڑھیاں تھیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان بادشاہوں میں شاید اکبر اور جہانگیر ہی ایسے بادشاہ گزرے جن کی داڑھیاں نہیں تھیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ’روشن خیالی‘ کا بہت چرچا فرماتے ہیں اگر وہ ’روشن خیالی‘کے علمبردار دانشوروں کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو اُنہیں یقین کرنا پڑے گا کہ داڑھی کو ’روشن