کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 44
(9) جناب محمد بن ابی بکر ثقفی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جارہے تھے کہ ”لبیک پکارنا کیسا ہے اور تمہارا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا؟“ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”لبیک کہنے والا لبیک کہتا، اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر پکارتا اور اس پر بھی کوئی اعتراض نہ کرتا۔“ (بخاری: ۹۷۰) اس حدیث سے نویں تاریخ کو تکبیر کہنے کا ثبوت مرفوع حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔ (10) عن أمّ عطية قالت کنا نوٴمر أن نخرج يوم العيد حتی نخرج البکر من خدرها حتی نخرج الحيض فيکن خلف الناس فيکبرن بتکبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون برکة ذلک اليوم وطهرته (بخاری: ۹۷۱) ” اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عورتوں کو عید کے دن (عیدگاہ کی طرف ) نکلنے کا حکم ہوتا یہاں تک کہ کنواری لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی نکالیں،پس وہ لوگوں کے پیچھے رہتیں۔ وہ مردوں کی تکبیرات کے ساتھ تکبیر کہتیں اور ان کی دعاوٴں کے ساتھ دعائیں مانگتیں اور اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرتیں۔“ اس سے عیدگاہ میں اونچی آواز میں تکبیرات کہنے کا ثبوت مرفوع حدیث سے ثابت ہوا۔ (11) امام زہری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز کو نکلتے اور تکبیرات کہتے یہاں تک کہ عیدگاہ آجاتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ بحوالہ ارواء الغلیل: ۳/۱۲۳) لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ البتہ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔ (بیہقی: ۳/۲۷۹) اور صحابہ کرام اور تابعین کا یہی عمل تھا۔ (ابن ابی شیبہ ۲/۷۱ بہ سند صحیح عن زہری) نیز ملاحظہ فرمائیں : ارواء الغلیل :۳/۱۲۲ (12) امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: ”منیٰ کے دنوں میں تکبیرات کہنا“ اور جب نویں تاریخ صبح کو عرفات جائے (تو تکبیرات کہے) اور جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے ڈیرے (خیمے) میں تکبیر کہتے اور مسجد والے بھی تکبیر سن کر تکبیرات کہتے اور بازار والے بھی کہنے لگتے یہاں تک کہ ساری منیٰ گونج اُٹھتی اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ان دنوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے اور نمازوں کے بعد اپنے بستر پر ،اپنے ڈیرے میں،اپنی مجلس میں اور راستے میں چلتے ہوئے ان سب دنوں