کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 43
میں ذکر کیا ہے اور عبدالحمید بن غزوان بصری کو ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شیخ‘ کہا ہے اور ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور باقی رواۃ بخاری و مسلم کے ہیں۔(موسوعہ مسنداحمد:۹/۳۲۴) (5) ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر اور راتیں لیلة القدرکے برابر ہیں۔ (ابن خزیمہ: ۲/۲۴۶ح ۳۰۲۱) لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی مسعود بن واصل لین الحدیث اور دوسرے راوی النہاس بن قہم ضعیف ہیں۔ نیز یہ فضیلت دنوں کے لحاظ سے ہے جبکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی راتوں کی فضیلت لیلۃ القدر کی وجہ ہے اور سال کی کوئی دوسری رات رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ (6) عرفہ کے دن کا روزہ جس سے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (صحیح مسلم:۲۷۴۶) تکبیرات کہنے کے ایام (7) قال ابن عباس: ﴿وَاذْکُرُوْ اللهَ فِيْ أَيَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ﴾ أيام العشر ﴿وَالأَيامُ الْمَعْدُوْدَات﴾ أيام التشريق (صحیح بخاري: کتاب العیدین باب فضل العمل في أیام التشریق) جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ أیام معلومات (الحج: ۲۸) سے مراد ذوالحجہ کے دس دن (ایام عشر) ہیں اور أیام معدودات (البقرہ : ۲۰۳) سے مراد ایام تشریق ہیں۔“ ایام تشریق سے مراد عیدالاضحی کے بعد کے تین دن یعنی ۱۱،۱۲ اور ۱۳ تاریخیں ہیں۔ ان دنوں میں اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا جائے اور بالخصوص تکبیرات کو کثرت سے پکارا جائے۔ (8) وکان ابن عمر وأبوهريرة يخرجان إلی السوق في الأيام العشر يکبران ويکبر الناس بتکبيرهما وکبر محمد بن علی خلف النافلة ”جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ’ایام عشر‘ میں بازار کی طرف نکلتے اور تکبیرات پکارتے اور لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہتے اور جناب محمد بن علی (امام محمد باقر) نفل نماز کے بعد بھی تکبیر پکارتے۔“ (صحیح بخاری: ایضاً)