کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 42
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کہ جو اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں لے کر نکلا اور پھر ان میں سے کوئی چیز بھی لے کر واپس نہیں پلٹا (تو یقینا یہ شخص اجر میں بڑھ جائے گا)۔“
(3) عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: (ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه من العمل فيهن من هذه الأيام العشر فَأَکْثِرُوْا فيهن من التهليل والتکبير والتحميد) (مسنداحمد:۲/۷۵ ح۵۴۴۶،شعب الایمان :۳۷۵۰، عبدبن حمید:۸۰۷، مشکل الآثار:۲۹۷۱)
ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”کوئی دن جس میں عمل صالح کرنا اللہ کے نزدیک بہت زیادہ عظیم اور سب سے زیادہ محبوب ہو، وہ ان دس دنوں کے سوا نہیں ہے پس ان دنوں میں بہت زیادہ تہلیل لا اله الا الله، تکبیر الله اکبر اور تحمید الحمدلله کہو۔ “
اس روایت کی سند میں ایک راوی یزیدبن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف ہے اور جب وہ بوڑھا ہوگیا تھا تو اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا اور وہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا اور شیعہ بھی تھا۔ (تقریب)
(4) لیکن اس روایت کا ایک ’شاہد‘ صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہے جس کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے۔ اس روایت کی سند یہ ہے :
حدثنی أبو يحيٰی عبدالله بن أحمد بن أبي مسرة،حدثنا عبدالحميد ابن غزوان البصري، حدثنا أبوعوانة، عن موسیٰ بن ابي عائشة، عن مجاهد، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم :ما من أيام أعظم عندالله ولا العمل فيهن أحب الله من هذه الأيام، فأکثروا فيها من التهليل والتحميد) يعني أيام العشر
(۲/۳۴۶ ح ۳۰۲۴، اتحاف المہرۃ ۳/صدقہ ۲۰۳ بحوالہ موسوعہ مسنداحمد :۹/۳۲۴)
اس حدیث میں التکبيرکے الفاظ نہیں ہیں، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے بکثرت تکبیرات کا کہنا ثابت ہے۔اس روایت کی سند میں امام ابن خزیمہ کے استاذ ابویحییٰ بن ابی مسرۃ ہیں جن کا نام عبداللہ بن احمد ہے۔ ان کے متعلق ابن ابی حاتم الرازی فرماتے ہیں: میں نے ان سے احادیث لکھی ہیں اور ’صدق‘ کا مقام رکھتے ہیں اور ابن حبان نے انہیں ثقات