کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 40
تو اس پر نظرثانی کریں۔ مساجد میں سرکاری طور پر تنخواہ دار پیشہ ور اماموں اور خطیبوں کا تقرر کیا جائے تاکہ مغرب اور امریکہ کے خلاف جذبات اُبھارنے کی مہم روکی جاسکے۔“ ٭ رپورٹ میں ’سول اسلام‘ کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "Support of "civil Islam" Muslim civil society groups that advocate moderation and modernity۔ is an essential component of an effective U.S policy toward the Muslim world. Assistance in efforts to develop education and cultural activities by secular of moderate Muslim organizations should be a proireity" (Internet) ” سول اسلام‘ یعنی مسلم سول سوسائٹی گروہ جو اعتدال پسندی اور جدیدیت کی وکالت کرتے ہیں کی امداد کرنا امریکہ کی مسلم دنیا کے متعلق خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔ سیکولر اور اعتدال پسند مسلم تنظیموں کی طرف سے تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کے متعلق امداد فراہم کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے جبکہ انتہا پسندوں کے لئے وسائل کا حصول ناممکن بنا دیا جائے۔“ اس رپورٹ کے متعلق عرفان صدیقی صاحب کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیے : ”رینڈ کارپوریشن کی یہ رپورٹ امریکی افکار، عزائم، اہداف اور مقاصد کا ایسا آئینہ ہے جس میں اُمت ِمسلمہ بھی اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ وہ اندازہ لگا سکتی ہے کہ اس کے اندر تفریق و تصادم کی دراڑیں ڈالنے کے لئے کن عوامل کوبطورِ ہتھیار استعمال کیاجارہا ہے… اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں انگڑائیاں لیتی روشن خیالی، اعتدال پسندی کا حقیقی سرچشمہ کہا ہے اور نظریاتی قلعوں سے کھیلتی فتنہ گر ہوائیں کہاں سے آرہی ہیں … اس رپورٹ کے تناظر میں اس امر کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ روشن خیالی، اعتدال پسندی، دینی مدارس کی تراش خراش، تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنے والے ایک عالی مرتبت بورڈ کا قیام، مساجد میں پیشہ ور خطیبوں اور سرکاری خطبوں کو رواج دینے کی تجویز، نصابِ تعلیم کی اصلاح، ’انتہا پسندوں‘ کے خلاف یلغار، اعتدال پسند این جی اوز کی سرپرستی، جیسے ’انقلابی اقدامات‘ کس افق سے طلوع ہورہے ہیں اور ان کی اصل منزلیں مقصود کیا ہے؟ “ (کالم ’نقش خیال‘ از عرفان صدیقی: نوائے وقت 31/دسمبر 2004ء)