کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 4
ازکار تاویل نہیں ہے کہ وہ اس ملک کا اسلامی تشخص ختم کرکے اسے سیکولر شناخت دینا چاہتے ہیں تاکہ اہل مغرب کی نگاہ میں اسے قبولیت حاصل ہوسکے۔
19/ دسمبر 2004ء کو صدارتی ترجمانی نے وضاحت کی :
”کراچی میں صدر مشرف کے مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب کے حوالے سے اخبارات میں کچھ جملے سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کئے گئے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون بہتر مسلمان ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی خواہشات دوسروں پر مسلط کرے۔ صدر نے کہا تھا کہ برقہ اور داڑھی لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے لیکن کسی کو اپنے خیالات دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں۔“ (روزنامہ خبریں: 19/ دسمبر 2004ء)
صدارتی ترجمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جناب صدر کا روئے سخن کس کی جانب تھا؟ انہیں چاہئے تھا کہ وہ نشاندہی فرماتے کہ پاکستان میں فلاں گروہ یا جماعت یا کوئی فرد لوگوں کو زبردستی داڑھیاں رکھوانے اور عورتوں کو برقع پہنانے میں ’ملوث‘ ہے جسے بروقت انتباہ کی صدرِ مملکت کو ضرورت پیش آئی۔ داڑھی رکھنا اور برقعہ پہننا اگرچہ اسلامی شعائر میں داخل ہے اور اسے قرآن و سنت کی رو سے مسلمانوں کے لئے نہ صرف باعث ِثواب قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کی پابندی نہ کرنے والا مسلمان اسلام کی نظر میں گناہ کا مرتکب ہے۔ مگر کوئی بھی ایسی جماعت یا گروہ ریکارڈ پر نہیں ہے جسے بے پردہ عورتوں کو زبردستی برقعہ پہناتے دیکھا گیا ہو یا بے ریش آدمیوں کو داڑھی نہ رکھنے کی پاداش میں جبر کا شکار کرتے پایا گیا ہو۔ جب حقیقت میں کوئی ایسی مہم یا تحریک سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی تو پھر صدر صاحب کے یہ کلمات بلا جواز ہی نہیں، ان کے عالی قدر منصب کے شایانِ شان بھی نہیں ہیں۔ وہ ذاتی حیثیت میں خواہ کتنے بھی سیکولر ہوں، انہیں مذہب پسندوں سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ ہو، مگر بحیثیت ِصدر پاکستان کے ان سے اسی طرح کی بے سروپا باتوں اور اسلامی شعائر کے متعلق قابل اعتراض ریمارکس کی کوئی بھی سلیم الفکر شخص توقع نہیں رکھ سکتا۔
صدر صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی کسی کو زبردستی داڑھی رکھوا سکتا ہے اور نہ کسی آزاد خیال عورت کو برقعہ پوش پر مجبور کرسکتا ہے۔ داڑھی رکھنا صرف ’مولویوں‘کا ہی شیوہ