کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 33
امریکی حکومت بھی انہیں بے تحاشا وسائل فراہم کرتی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پنٹاگون کا ان اداروں سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے تھنک ٹینک کانام ’کمیٹی آف 300‘ ہے۔ اس میں امریکہ اور یورپ کے شاہی خاندانوں، صدور، وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ، ملٹی نیشنل کمپنیوں، ارب پتی تاجروں اور یونیورسٹیوں کے قابل پروفیسر اور یہاں معاشی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے والے عظیم دماغ اس کے رکن ہیں۔ یہ ادارھ چھوٹے تِهنك ٹَينكس کے لئے فکری قیادت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ امریکی ’ذ ہنی تالابوں‘ کے پس پشت حقیقی روحِ رواں یہودی دماغ ہے جو صدیوں سے سازشوں کے جال بننے میں مہارت رکھتا ہے۔ 9 ستمبر کے بعد امریکہ کے جن تھنک ٹینکس نے عالم اسلام میں شدت پسندی کے خاتمے اور ’روشن خیالی‘ کی قدروں کو تیزی سے فروغ دینے کے لئے ’تحقیقی رپورٹوں‘ کے ذریعے امریکی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان میں رینڈ کارپوریشن(RAND) کا نام سرفہرست ہے۔ RAND ہی وہ ادارہ ہے جس نے نائن الیون (9 /ستمبر2001ء) کے فوراً بعد پنٹاگون میں ایک اہم بریفنگ دی تھی جس میں من جملہ دیگر سفارشات کے یہ کہا گیا کہ امریکی حکومت القاعدہ کے خاتمہ کے لئے افغانستان پر بھرپور فوجی حملہ کرے۔ ایک دوسری بریفنگ میں RAND نے سفارشات پیش کیں کہ حکومت ِامریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات پرنظرثانی کرے، کیونکہ 9/ستمبر میں مبینہ طور پر ملوث 19 ’دہشت گردوں‘ میں سے سولہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ RAND نے اپنی رپورٹوں میں ’اسلامی بنیاد پرستی‘کو مغربی تہذیب کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ 2003ء میں RAND نے درج ذیل عنوان سے مفصل ’ تحقیقی رپورٹ‘ پیش کی: "Civil and Democratic Islam: Partners, Resources and Strategies." یعنی ”سول اور جمہوری اسلام: شرکاے کار، وسائل اور حکمت ِعملی“ 72 صفحات پرمبنی یہ رپورٹ اسمتھ رچرڈ سن فاوٴنڈیشن کے تعاون سے تیار کی گئی ہے جو ایک یہودی ادارہ ہے۔ رپورٹ کے شروع میں RAND کا تعارف ان الفاظمیں ملتا ہے : "The RAND Corporation is a non۔profit research