کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 30
کو موقع پاتے ہی جان سے مار دیتے ہیں۔ ہمارے ہی ایک مقدمہ کے قیدی یوسف کذاب جسے عدالت سیشن نے سزائے موت دی تھی کو جیل کے اندر ایک قیدی نے گولی مار کر ہلاک کردیا اور خود اقرارِ جرم کرلیا۔ چند ماہ قبل لبنان کی ایک گلوکارہ کو جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز گانے گائے، اس کے شوہر نے اس کا گلا کاٹ کر ہلاک کر دیا۔ ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں قانونِ توہین رسالت کو ضابطہ کار میں ترمیم کے ذریعہ غیر موٴثر کرنے کی کوشش ملک و قوم کے لئے انتہائی خطرناک ہوگی۔ غلط مقدمات کے سدباب کے لئے موٴثر قانونِ تعزیرات موجود ہے۔ قانونِ تعزیرات کی دفعہ 194 کی رو سے اگر کوئی شخص کسی بے گناہ کو سزائے عمرقید یا سزائے قتل دلانے کے ارادے سے غلط بیانی کرے یا جھوٹی شہادت دے تو اس کو عمر قید کی سزا مقرر ہے۔ اور اگر کسی شخص پر سزائے موت لاگو ہوجائے اور بعد میں ثابت ہو کہ اس کی وجہ جھوٹی شہادت تھی تو ایسے جھوٹے گواہ یاگواہوں کو سزائے موت دی جائے گی۔ اگر قانونِ توہین رسالت کا غلط استعما ل ہوتا ہے تو معلوم نہیں کیوں گورنمنٹ یہاں اس تعزیراتی قانون پر عمل درآمد سے گریزاں ہے۔ عدالت بھی از خود نوٹس لے کر ایسے افراد کو قرارِ واقعی سزا دے سکتی ہے جو توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات میں لوگوں کو ملوث کرتے ہیں۔ جب یہ تعزیری قانون پہلے ہی سے ملک میں موجود ہے تو پھر صرف قانونِ توہین رسالت کے طریق کار میں ترمیم کا کیا جواز ہے؟ دوسرے سنگین جرائم کا بھی ملک میں جھوٹے مقدمات کے ذریعہ غلط استعمال ہورہا ہے۔ ان کے طریق کار میں کوئی ترمیم کیوں نہیں؟ صرف توہین رسالت کے جرم کے طریق کار میں یہ ترمیم کیوں مسلط کردی گئی ہے۔ پاکستان کے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ساری کارروائی امریکہ اور یورپ کے دباوٴ کا نتیجہ ہے!!